جاوید چودھری کا مشورہ

607

’’ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں سعودی عرب ایک بہت بڑا سیاحتی ملک بن رہا ہے اور اس ملک میں سب کچھ ’’جائز‘‘ ہوگا، ہم ایک ایسی دنیا میں بھی رہ رہے ہیں جس میں دوبئی نے پچھلے ہفتے شراب سے ٹیکس واپس لے لیا، ترکی میں شراب، شباب اور جوا خانے قانونی ہیں، ملایشیا اور انڈونیشیا میں کیسینوز، بارز، ڈسکوز اور مساج پالرز ہیں۔ ازبکستان میں آج بھی ہر چیز عام ہے جہاں احادیث کی دو بڑی کتابیں لکھی گئی تھیں اور جس دنیا میں ویٹی کن سٹی کے سائے میں شراب خانے اور دیوار گیریہ سے چند میڑ کے فاصلے پر کلب ہیں جب کہ ہم ہنگلاج، راج کٹاس، ٹیکسلا اور موہن جو دڑو کے زائرین کو ویزہ دینے کو تیار نہیں چنانچہ پھر ہمارے پاس ڈالر کہا ں سے آئیں گے ؟ میری درخواست ہے اگر آپ اس دنیا میں رہنا چاہتے ہیں تو پھر دنیا کے ساتھ ساتھ چلیں ورنہ کسی دوسرے سیارے پر تشریف لے جائیں، یہ زمین پھر آپ کے قابل نہیں ہے‘‘۔
قارئین کرام آپ نے کالم کا درجہ بالا حصہ ملاحظہ فرمایا یہ کالم 12 جنوری 2023 کو شائع ہو ا ملک کے مشہور کالم نگار جاوید چودھری نے لکھا ہے موصوف لبرل ازم کے پرستار ہیں لبرل صفوں میں ان کی بڑی قدر کی جاتی ہے اور اسی طرح یہ لبرل ازم کی خدمت اپنی تحریروں کے ذریعے کرتے رہتے ہیں ان کے اندر لکھنے کی بہترین صلاحیت موجود ہے۔ کاش یہ صلاحیت اسلام اور پاکستان کی خدمت میں صرف ہو اپنے تئیں تو شاید وہ یہ سوچ کر لکھتے ہوں گے کہ کبھی مستقبل میں پاکستان ایک لبرل ملک بن جائے گا تو شاید ان کی یہ خدمت سوارت ہوجائے گی۔ لبرل ازم کے پاکستان میں سب سے بڑے علمبردار پہلے مارشل ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان تھے انہوں نے وردی کی طاقت کے ذریعے اس ملک کے نام سے اسلامی جمہوریہ نکالنے کی کوشش کی تھی انہوں نے بڑی کوشش کی کہ ملک کو لبرل بنایا جائے لیکن ان کی زندگی میں ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی نہ ان کی اولادوں کی زندگی میں ہوسکے گی۔ یہ تو اقتدار کی قوت کے بد مست ہاتھی ہوتے ہیں جن کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ایک کمزور چیونٹی ان کا کام تمام کردے گی۔ اسی طرح چہار جانب سے لبرل ازم کی یلغار ہوتی رہی کبھی سیاسی قوت کے ساتھ، کبھی دھن دولت کے ذریعے، کبھی قلم کی طاقت کے ذریعے یہ اپنی دعوت کا پرچار کرتے رہے مگر تعداد میں کم مگر اخلاقی طاقت میں فائق خدا کے بندوں نے ساتھ ہر سطح پر اس نظریے کے داعیوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ یہ لبرل اوپر تو موجود ہیں مگر ان کی جڑیں عوام میں موجود نہیں ہیں اگر ایسا ہوتا تو یہاں بھی وہ سب کچھ جائز ہوجاتو جس کے لیے جاوید چودھری صاحب نے قلم اٹھایا ہے اور اپنے قیمتی مشورے پاکستانیوں کو دیے ہیں اور کہا ہے کہ میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر چلنا ہے تو دنیا کے ساتھ چلیں ورنہ کسی دوسرے سیارے پر تشریف لے جائیں۔
جاوید چودھری شاید یہ بات بھول گئے کہ انسان خود اپنی مرضی سے دنیا میں آیا ہے اور نہ دنیا سے اپنی مرضی سے جاسکتا ہے آپ یہ بھی بھول گئے کہ اس پوری کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اُسی نے آپ سمیت تمام انسانوں کو اپنے نائب کے طور پر بھیجا ہے آپ اس زمین پر اس رب کائنات کے خلیفہ ہیں آپ کی حیثیت یہ ہے۔ اس حیثیت اور مرتبے کا ادراک شاید آپ کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ آپ نے خود یہ ذمے داری لی نہیں ہے بلکہ آپ پر خالق کائنات نے یہ ذمے داری ڈالی ہے۔ اپنی اس حیثیت کو سامنے رکھ کر اگر آپ غور کریں گے تو آپ سے آپ یہ بات آپ کی سمجھ میں آجائے گی کہ جب کوئی فرمانروا کسی کو اپنی حکومت میں بطور اپنا نائب بنا کر کہیں بھیجتا ہے تو وہ نائب وہاں پر بادشاہ یا فرمانروا نہیں ہوتا بلکہ وہ امانتاً وہ اختیارات استعمال کرتا ہے جو حقیقی بادشاہ نے اُسے دیے ہیں اس کو اس علاقے میں انہی قوانین انہی اصولوں کے مطابق کاروبار حکومت چلانے ہوتے ہیں جو اس کو عطا کیے گئے ہوتے ہیں وہ اپنے تمام کاموں کا جواب دہ ہوتا ہے حقیقی بادشاہ کو جس نے اس کو اپنا نائب بنا کر بھیجا ہوتا ہے۔ اسی مالک حقیقی نے یہ بات اپنی کتاب میں فرمائی ہے کہ ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان کی روش اختیار کرتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمانوں اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑلیا‘‘۔ (سورہ اعراف: 96)
ایک بار نبی کریم ؐ صحابہ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے راستے میں ایک بکری کا بچہ مراہو ملا آپؐ نے صحابہ کرام کی طر ف رخ کرکے پوچھا کہ کون ہے جو یہ مرا ہوا بکری کا بچہ دو درہم میں خریدے۔ صحابہ کرام نے کہا کہ اے اللہ کے نبیؐ ایک تو یہ بکری کا بچہ ہے اور وہ بھی مرا ہوا اس کے قریب کھڑا ہونا مشکل ہے آپؐ دو درہم میں خریدنے کی بات کررہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ دنیا کی حقیقت اللہ کے نزدیک اس بکری کے مرے ہوئے بچے سے بھی کم ہے۔
جاوید صاحب! آپ کے پورے کالم میں صرف اس بات کا ذکر ہے کہ ڈالر ملک میں کیسے آئیں گے اس کے لیے کیا ذرائع استعمال کیے جائیں آپ نے اپنی دانست میں حلال اور حرام کا لحاظ کیے بغیر تمام ذرائع کا ذکر بھی فرمایا ہے اور اسی کو دنیا کا مروجہ اور ترقی کرنے کا راستہ بتایا ہے۔ جاوید چودھری اور ان کی صف کے جتنے لوگ ہیں ان کو یہ سادہ سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ موٹر کمپنیوں نے جو گاڑیاں پٹرول سے چلنے والی تیار کی ہیں وہ پٹرول ہی سے چلتی ہیں اگر ان کو ڈیزل سے چلانے کی کوشش کی جائے گی تو اس کو کم عقلی ہی کہا جائے گا۔
پاکستان کے قیام کو دنیا کا ایک معجزہ ہی کہا جائے گا کیونکہ ملکوں کے قیام کی وجہ قومیت ہوتی ہے، جغرافیہ ہوتا ہے۔ مگر پاکستان کے قیام کی وجہ صرف اور صرف نظریہ تھا یہ نظریہ اتنا طاقتور تھا کہ اس نے تمام برصغیرکے مسلمانوں کو اس تحریک کے ساتھ کھڑا کردیا آپ نے تاریخ کا مطالعہ تو کیا ہی ہوگا کہ پاکستا ن کا قیام بنگال، سندھ، بلوچستان، پنجاب اور موجودہ کے پی کے میں ہورہا تھا اور اس کے لیے جدوجہد یوپی، سی پی اور دور دراز کے برصغیر کے مسلمان کررہے تھے اور ہر طرح کی قربانیاں یہ جانتے ہوئے دے رہے تھے کہ پاکستان تو ان کے علاقوں میں نہیں بنے گا۔ وہ جو لوگ دیوانہ وار گلیوں محلّوں میں نعرے لگاتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا…؟ لاالہ الااللہ۔ یہ محض نعرہ نہیں تھا اگر اس وقت قائد اعظم اس نظریے کی طاقت کو نہیں سمجھتے تو وہ قیامت تک پاکستان کا مقدمہ انگریز سرکار سے لڑتے ہی رہتے اور پاکستان نہ بنتا۔ یہ اس نظریے کی قوت ہی تھی جس نے ایک انہونی کو ہونی کردیا۔ یہ نظریہ ہی اس کا قانون اور اس کا دستور ہے پاکستان بنا ہی اسی لیے ہے کہ اس کے نظام کو اسی نظریے کے مطابق چلایا جائے۔ اس ملک کو قائم ہوئے ستّر سال سے زائد ہوگئے ہیں کسی نے لبرل ازم سے اس کو چلانے کی کوشش کی کسی نے اس کو کمیونزم سے چلانے کی کوشش کی لیکن اس ملک کی حالت روبروز ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق ہوتی چلی گئی۔ جس دن ملک کو اسی نظریے کے مطابق چلانے کا پختہ عزم ہر خاص و عام کرے گا اسی دن سے اس ملک کے تمام دلدر دور ہونا شروع ہوجائیں گے وگر نہ قیامت کی صبح تک بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ نبی اکرمؐ نے مال کے بارے میں فرمایا کہ: ’’ہر امت کے لیے ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے‘‘۔ موجودہ زمانے میں مادہ پرستی ایک مذہب کی شکل میں سامنے موجود ہے آپ جیسا زیرک آدمی بھی ڈالر میں ملکی معیشت کی بہتری دیکھ رہا ہے امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ پانی کشتی کے لیے ضروری ہے مگر جب وہ کشتی کے اندر آجاتا ہے تو وہی اس کو ڈبو بھی دیتا ہے۔ اسلام مال کمانے کو غیر اہم نہیں قرار دیتا ہے مگر اس کی حدود اور قیود کا بھی تعین کرتا ہے اور مال کی ہوس اور زرپرست لوگوں کو کتے سے تشبیہ دیتا ہے جس کی زبان ہر وقت باہر لٹکی رہتی ہے۔ یاد رکھیں دنیا کی اکثریت اگر حق کو تسلیم نہ کرے تب بھی حق حق ہی رہتا ہے وہ اکثریت ناکام ہوجاتی ہے جو حق کا انکار کرتی ہے۔