سعودی وزیرخزانہ صاحب! کام تو ہم سے نہیں ہوسکتا

701

سعودی وزیرخزانہ محمد الجدعان نے کہا ہے کہ سعودی عرب بغیر کسی شرط کے براہ راست گرانٹس اور ڈپازٹس دیتا ہے لیکن اس پالیسی کو اب تبدیل کیا جا رہا ہے، اب براہ راست گرانٹس یا ڈپازٹس دینے کے بجائے دوست ممالک کو اصلاحات کرنے پر زور دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ڈپازٹس کی مدت بڑھا چکے، تیل اور دیگر سہولتیں دے رہے ہیں، جواب میں پاکستان کو بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے لوگوں پر ٹیکس لگا رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ دوسرے بھی ایسا ہی کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوست ممالک اپنے طور پر بھی کام کریں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر اور دیگر خلیجی ممالک براہ راست مالی امداد کے بجائے سرمایہ کاری پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ سعودی وزیر خزانہ کا یہ بیان گزشتہ برس دسمبر کے آخر میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں 3 ارب ڈالر ڈپازٹ کی سہولت میں توسیع کے بعد سامنے آیا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ کی تمام باتیں درست لیکن ’’کچھ کام کرنے کا‘‘ جو نسخہ وہ ہمارے لیے تجویز کررہے ہیں افسوس اس کی ہمیں عادت نہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ ایک مالیاتی بحران سے نکل کرچاہے ہم دوسرے مالیاتی بحران میں داخل ہو جائیں حتیٰ کہ ڈیفالٹ کی حد کو پہنچ جائیں لیکن معیشت کی درستی، ناقص طرزحکمرانی کی اصلاح، وسیع پیمانے پر کرپشن کے خاتمے، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، غربت اور قرضوں سے نجات کے لیے ہمارا حکمران طبقہ سنجیدگی سے کچھ کام کرے یہ ممکن نہیں۔ معاشی خود مختاری کبھی ہمارے حکمرانوں کا ہدف نہیں رہا۔ دیرپا ترقی کے منصوبے بنانا اور انہیں عملی شکل دینا ہمارے طرز حکمرانی سے میچ نہیں کرتا۔ مانگے تانگے کے پیسوں سے ملک چلانا، دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل کرنا یہی ہمارے یہاں کا میاب حکومت کی نشانی اور طریقہ رہا ہے۔ وسائل سے بڑھ کر اور خوب بڑھ کر خرچ کرنا ہماری سول اور فوجی قیادت کی وہ عادت ہے اس جہان رنگ وبو میں جس کا کوئی علاج نہیں لیکن وسائل پیدا کرنا!! ہمارے حاشیہ خیال میں بھی کہیں اس کی گنجائش نہیں چاہے اس مسلسل عمل سے پیدا ہونے والے مالی خسارے کے نتیجے میں ہم بار بار معاشی بحرانوں میں گھرتے رہیں۔ کسے پروا ہے۔ یہ ملک خداداد ہے۔ وہی اس کی حفاظت کرے گا۔
ترقی اور ملک چلانے کے لیے بیرونی قرضوں پر انحصار آج کی عادت نہیں، سردجنگ کے زمانے ہی سے مغربی اتحادیوں نے ہماری عادت خراب کررکھی ہے۔ سوویت یونین سے نبرد آزما مغرب نے ہمیں استعمال کرتے ہوئے مالی خسارہ پورا کرنے کے لیے جن آسان قرضوں کی لت لگائی تھی اسے ہم نے طرز زندگی بنا لیا ہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک سول اور فوجی حکومتوں، سرمایہ دار طبقے اور افسرشاہی نے مغربی سامراج کے ایجنٹ بننے کے نتیجے میں ملنے والی بیرونی امداد اور قرضوں ہی کو ریاست کو قائم رکھنے اور چلانے کا واحد طریقہ سمجھ رکھا ہے۔ بطور ریاست ہماری تمام حکومتوں اور بیوروکریسی کی کوششوں کا محور یہی رہا ہے کہ کسی طرح بڑی عالمی سامراجی طاقتوں خصوصاً امریکا کے کرائے کے فوجی اور بھاڑے کے ٹٹو بن سکیں، ریاست کو ان طاقتوں کو کرائے پر دے کرخود اپنے ذاتی اثاثوں میں کروڑوں اور اربوں کے اضافے کرسکیں۔ قرضوں کی اس لت نے ہمارے حکمرانوں کو ملک کی معاشی اور صنعتی ترقی کی جانب بالکل ابتدائی نوعیت کے اقدامات اٹھانے پر بھی متوجہ نہیں کیا۔ ملک میں اصلاحات لانے، ریو نیو بڑھانے اور پائیدار معاشی اقدام اٹھانے کی کسی کو ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ بیرونی امداد کی دستیابی نے ملکی معیشت کی استواری سے ہمیں ایسا بے نیاز کیا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات، عسکری معاہدوں اور دوست ممالک پر انحصار ہی کو ہم نے ملک چلانے کا حقیقی اور درست طریقہ سمجھ لیا۔ 1980 کی دہائی ہو یا گیارہ ستمبر 2001 امریکا کا فرنٹ لائن ملک بن کر ڈالر حاصل کرکے ترقی کرنا بطور مملکت ہمارے وہ سنہرے دن تھے جن کی واپسی کے ہم آج بھی منتظر ہیں۔ مغربی اتحادیوں نے منہ موڑا تو ہم سعودی عرب، چین اور خلیجی ریاستوں کی طرف نکل پڑے۔ ان ممالک نے پاکستان کو معاشی بحرانوں سے نکالنے میں مدد کی جس میں مالی ذخائر میں اضافہ کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک میں قرضوں اور ڈپازٹس کی فراہمی بھی شامل ہے لیکن ہماری کبھی نہ سدھرنے والی عادتوں کو دیکھ کر اب دوست ممالک بھی ہاتھ کھینچنے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔ سعودی وزیرخارجہ کا بیان اسی سمت اشارہ ہے۔
پچھلے 75برسوں میں ہم نے اپنی صنعتوں کو اس درجہ ترقی دی ہے کہ بڑے پیمانے پر درکارخام مال، مشینری اور پرزہ جات کی درآمدکے بغیرنہ تو ہماری صنعتی پیداوار ممکن ہے اور نہ برآمدات۔ کام نہ کرنے کی عادت وجہ ہے کہ اس ملک میں سوویت یو نین کی مدد سے لگائی گئی اسٹیل مل (وہ بھی اب بند ہوچکی ہے) اور چین کی مدد سے تعمیر کیے گئے ہیوی مکینیکل کمپلکس کے علاوہ کوئی بڑا انفرا اسٹرکچر کا منصوبہ بیرونی قرضوں کے باوجود نہیں بنا۔ تربیلا، منگلاڈیم، موٹر ویز اور دیگر ایک دو منصوبے نہ جانے کس بے خودی میں بن گئے ورنہ آج تک ہم ایک سادہ سی موٹرسائیکل کا انجن یا پاور لوم تک خود بنانے کی صلا حیت پیدا نہیں کرسکے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود 75سال بعد بھی ہم ٹریکٹرز اور دیگر بنیادی زرعی آلات اور پرزے خود بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ آج تک فرٹیلائیزر، زرعی
اسپرے کے لیے درکار بنیادی کیمیکلز، ٹیکسٹائل انڈسٹری میں استعمال ہونے والی ڈائیز و دیگر کیمیکلز جیسی بنیادی چیزوں میں بھی ہم خود کفیل نہیں۔ کبھی نہری نظام پر سرمایہ کاری کر کے اسے جدید بنانے، موثر آبی وسائل کی مسلسل تعمیر، پانی کے استعمال کے طریقہ کار میں جدت کاری لانے، کاشت کاروں کو سستی بجلی اور سستے زرعی قرضے فراہم کرنے جیسے بنیادی ترین چیزوں پر بھی توجہ دینے کی ہمارے حکمرانوں نے ضرورت محسوس نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کو کاٹن اور گندم بھی درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ جبکہ واہگہ بارڈر کے دوسری طرف انڈین پنجاب میں گندم کی فی ہیکٹر پیداوار پاکستانی پنجاب کے مقابلے میں دوگنی اور چاول کی تین گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مالیت کے لحاظ سے ملک کی سب بڑی امپورٹ پٹرولیم مصنوعات ہیں، آج تک ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں آئل ریفائنریاں ہم نہیں لگا سکے تا کہ صرف خام تیل درآمد کرنا پڑے اور اسے صاف ملک میں ہی کیا جائے۔ نتیجتاً ہر سال اربوں ڈالر کا قیمتی زر مبادلہ ریفائنڈ پٹرولیم مصنوعات (جو خام تیل سے کہیں مہنگی ہوتی ہیں) کی درآمد پر ضائع ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف انڈیا کے پاس اتنی آئل ریفائننگ صلاحیت ہے کہ ملکی ضروریات پوری کرنے کے بعد اس کی سب سے بڑی ایکسپورٹ بھی ریفائنڈ پٹرولیم مصنوعات پر مبنی ہے۔ سو محترم سعودی وزیر خزانہ صاحب افسوس آپ کی یہ فرمائش پوری نہیں ہو سکتی۔ ہمارے حکمرانوں سے کام کی توقع نہ رکھیں۔ ازلی دشمنی کے باوجود سستی اور کام نہ کرنے کی عادت ہمیں بھارت سے مقابلے پر نہیں اکسا سکی، قائداعظم کام کام اور کام کی تلقین کرتے گزر گئے، ’’غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ ودو میں‘‘ سمجھا سمجھاکر علامہ اقبال تھک گئے، ہم نے ان کی نہ سنی تو معاف کیجیے آپ کی کیا سنیں گے۔ اللہ بہت بڑا ہے اگر آپ نے امداد نہ کی تو وہ کسی اور کو امداد کے لیے بھیج دے گا۔ اللہ بھوکا اٹھاتا ضرور ہے بھوکا سلاتا نہیں ہے۔