جرم ضعیفی

656

کہتے ہیں جرم ضعیفی ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا مرگ مفاجات ہے۔ اہل ِ زبان ناگہانی موت کو مرگِ مفاجات کہتے ہیں۔ وطن عزیز کے عزیزان مصر نے قوم کو اقوام عالم میں ایک بہت ہی کمزور قوم بنا دیا ہے اور بد نصیبی یہ بھی ہے کہ روز مرنے اور روز جینے کو مرگِ مفاجات کہا جاتا ہے۔ اس کا معنوی کینوس اتنا وسیع ہے کہ ہم نہ داخلہ پالیسی بنا سکتے ہیں نہ خارجہ پالیسی وضع کر سکتے ہیں۔ عالمی بینک، آئی ایم ایف اور امریکا بہادر ہی یہ معاملات طے کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ مہنگائی، بیروزگاری، عوامی مراعات اور سہولتوں کے معاملات بھی انہی کی ہدایات پر طے پاتے ہیں۔ چین بھی لگ بھگ ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا اس نے آزادی سے خود مختاری پانے کے لیے جو جدوجہد کی ہے وہ لائق تقلید اور قابل تحسین ہے۔ مگر ہمارا حکمران طبقہ تقلید کا نہیں تحسین کا قائل ہے۔ وہ چین کی جدوجہد کی تحسین تو کرتا ہے مگر تقلید کرنے پر آمادہ نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے آبا کے آقاؤں کو اب بھی اپنا آقا مانتا ہے۔ یہ بھی ابوجہل کی طرح اسلام کی صداقت کا تو قائل ہے مگر اسلام سے گریزاں ہے کہ سچائی سے گریز پائی اس کے خمیر میں شامل ہے اور اس کی فطرت ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ اسلامی نظام سے اس لیے الرجک ہے کہ اس کے آقا اس کی حقانیت سے خائف ہیں۔
ہمارا دانشور طبقہ کہتا ہے کہ اسلامی نظام میں اسلامی سزائیں ناگزیر ہوں گی جو باعث رسوائی ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام اور ممالک ان سزاؤں پر سخت رد عمل کا اظہار کریں اور قطع تعلق کریں گے اور ہم بے یار و مدد گار ہو جائیں گے۔ دنیا کا کوئی ملک بھی ہم سے تعلق استوار کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ چین میں مجرموں کو دی جانے والی سزائیں اسلام سے بہت قریب ہیں۔ ان پر کوئی معترض نہیں ہوتا اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ چین ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ وہ اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی خود بناتا ہے۔ وہ درآمد ہدایات کا پابند نہیں۔ چین ایک ایسا ملک ہے جہاں ملاوٹ کی سزا موت ہے۔ جرم کا مرتکب کوئی بھی ہو قابل معافی نہیں سمجھا جاتا۔ گزشتہ دنوں بھی ایک ایسے شخص کو قانون کے مطابق سزا دی گئی ہے جو ملک کے اہم عہدوں پر فائز رہا تھا۔ ایران میں بھی بہت سے اہم شخصیات کو سزائیں دی گئی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہاں ان کے طرف داروں اور عقیدت مندوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ کسی بھی اہم اور مقبول شخصیت کو سزا دینے سے اس لیے اجتناب برتا جاتا ہے کہ عوام احتجاج کریں گے۔ گویا ہماری عدلیہ سزائیں سناتے وقت عوامی رد عمل کو سامنے رکھتی ہے اور اس کے مطابق سزا سناتی ہے۔ جج صاحبان نہیں چاہتے کہ ان کے گھروں کا گھیراؤ کیا جائے۔ ان کے اہل خانہ کو ناگوار تبصرے سننے نہ پڑیں۔ اس سوچ نے قانون کو مذاق بنا دیا ہے اور عدلیہ بے توقیر ہو گئی ہے۔ جج صاحبان اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں یہ خیال پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ عدالتیں صرف حکمرانوں اور بااختیار لوگوں کو ریلیف دیتی ہیں۔ اور اس مجبوری پر جو غصہ آتا ہے اس کی زد میں عوام آتے ہیں۔
کہتے ہیں اچھے لوگ اور اچھی قومیں اپنے پڑوسیوں سے بہت کچھ سیکھتی ہیں۔ مگر ہمارا حکمران طبقہ پڑوسیوں کی اچھی باتوں سے بھی گریزاں رہتا ہے۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے ماتحت عدالتوں کو یہ ہدایت جاری کی ہے کہ کسی بھی مقدمے کی سماعت سے قبل یہ فیصلہ کیا جائے کہ مقدمہ درست ہے یا جعل سازی پر مبنی ہے۔ اور یہ فیصلہ کرنے کے لیے مدعی کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ اس معاملے میں پولیس بھر پور تعاون کرتی ہے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو مقدمات عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہوتے ہیں وہ بھی اپیل در اپیل کی سیڑھی لگا کر عدالت عظمیٰ کے جسٹس صاحبان کے آفس کی زینت بن جاتے ہیں۔ اور کوئی ایسا ادارہ موجود نہیںجو پوچھ سکے کہ ثبوت کے بغیر مقدمات کی سماعت کیوں کی جاتی ہے۔ مدعا علیہ کو اذیت اور مالی طور پر صدمات سے دو چار کیوں کیا جاتا ہے۔ عدالتی نظام کی یہ بدعت بھی باعث شرم ناک ہے کہ جو شخص مقدمہ دائر ہی نہیں کرتا اسے بھی اپیل میں مقدے کا حصہ بنا لیا جاتا ہے حتیٰ کہ جعل سازوں کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے قابض جائداد کا کسی کو بھی مختیار عام بنا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ہم نے وکلا سے قانونی حیثیت پوچھی تو وکلا نے کہا کہ جعل ساز کو یہ اختیار قانون نے دیا ہے ہم کیا کر سکتے ہیں۔