یہ  کھیل ہے ذہانت کا

464

کون ہے جو ذہین کہلانے کا شوقین نہیں؟ ذہانت کسے بُری لگتی ہے؟ ہم اپنی ذہانت کی بات کر رہے ہیں۔ دوسروں کی ذہانت بُری لگ سکتی ہے، اپنی ذہانت کبھی بُری نہیں لگتی۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ذہانت کے ساتھ زندگی بسر کرے، زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرے، لوگوں سے احترام بھی پائے اور مقبولیت سے ہم کنار بھی ہو۔ محض مقبولیت کافی نہیں ہوتی۔ جب تک کسی کو ذہین تسلیم نہ کیا جائے تب تک اُسے اپنی کامیابی ادھوری سی لگتی ہے۔

ذہانت کیا ہے؟ ذہن کا درست استعمال۔ جو لوگ ذہن کو بہ رُوئے کار لانے پر یقین رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ سارا کھیل ذہن ہی کا تو ہے۔ ذہن سے بہ طریقِ احسن کام لینے کی صورت میں زندگی سنورتی ہے، شخصیت کے رنگ نکھرتے ہیں۔ ذہانت ہی انسان کو نمایاں کرتی ہے، اُس کی کارکردگی کا گراف بلند کرتی ہے اور اُسے زیادہ کامیابی یقینی بنانے کے قابل بناتی ہے۔ ذہانت ہی کی بہ دولت انسان اپنے پورے وجود کو ڈھنگ سے بہ رُوئے کار لانے کے قابل ہو پاتا ہے۔ آپ جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ ذہانت ہی کے دم سے ہے۔

جو لوگ ماحول پر نظر رکھتے ہیں وہ ہر تبدیلی کی اصل جانتے ہیں اور اپنے آپ کو بروقت تبدیلی کے لیے تیار کرتے ہیں۔ چوکس رہنے کی صورت میں انسان اپنےآپ کو بروقت بدل پاتا ہے۔ اِسی کا نام ذہانت ہے۔ ذہانت اس کے سوا کیا ہے کہ انسان اپنے ماحول کو ڈھنگ سے سمجھنے کے قابل ہو اور جو کچھ بھی کرنا لازم ہو وہ آسانی سے کر گزرے؟

سوال یہ ہے کہ ذہانت کیونکر بڑھائی جائے۔ ذہانت کا گراف بلند کرنا ہر انسان کے لیے ممکن ہے مگر یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ جو زندگی کا پورا کھیل ہے یہ صرف اور صرف ذہانت سے عبارت ہے۔ ذہانت کے موثر استعمال سے ہٹ کر کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہوسکتا۔ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں معیاری انداز سے جینا صرف اور صرف ذہانت کے ذریعے ممکن ہے۔ معمولی یا پست درجے کی ذہانت کے ساتھ بھی جیا جاسکتا ہے مگر ایسا جینا کسی کام کا نہیں ہوسکتا۔ کم تر یا پست معیار کی ذہانت کو بہ رُوئے کار لانا یعنی اپنے وجود کو زنگ لگانا۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں ماہرین اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ انسان زندگی بھر سیکھتا رہے، پڑھتا رہے، تجربے کرتا رہے۔ اسی صورت زندگی کو زیادہ بامعنی بنانے کے ساتھ ساتھ ذہانت کا گراف بھی بلند کیا جاسکتا ہے۔

اس میں کیا شک ہے کہ جو لوگ ذہانت سے کام لیتے ہیں وہ اپنی الگ شناخت قائم کرنے میں تیزی سے کامیاب ہوتے ہیں۔ لوگ ہر اس انسان کو پسند کرتے ہیں جو ذہانت کو اہمیت دیتا ہے۔ ذہانت کو انسان جس نظر سے دیکھتا ہے اُسی کی بنیاد پر طے ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے حوالے سے کس حد تک سنجیدہ ہے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ کوئی پیدائشی طور پر بہت ذہین ہوتا ہے نہ کند ذہن۔ ہم سب برابری کی سطح پر پیدا ہوئے ہیں۔ جنہیں ہم ذہین گردانتے ہیں وہ لوگ دراصل زیادہ چوکس اور بیدار مغز ہیں۔ ماہرین اس نکتے پر بہت زور دیتے ہیں کہ ذہانت کسی بھی اعتبار سے پیدائشی وصف نہیں۔ انسان میں اگر کسی حوالے سے کوئی جھکاؤ پایا جاتا ہو تو اسے پروان چڑھانا ذہانت کہلاتا ہے۔ اگر کسی کو بچپن ہی سے گاڑیوں میں دلچسپی رہی ہو تو وہ آگے چل کر یا تو شو روم کھول سکتا ہے یا پھر مکینک بن سکتا ہے۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنے شوق کو پروان چڑھائے۔ اسی طور بعض بچے کسی کھیل کے شوقین ہوتے ہیں۔ اگر وہ اپنے شوق کو بھرپور قوت کے ساتھ پروان چڑھائیں تو اچھے کھلاڑی بن جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو ذہانت بھلا بیدار مغز رہتے ہوئے ماحول کے مطابق ڈھلنے اور ذہن کو ڈھنگ سے استعمال کرنے کے سوا کس چیز کانام ہے۔

کوئی بھی شخص اتنا ہی ذہین ہوتا ہے جتنا وہ اپنے آپ کو بناتا ہے۔ بہت سے افعال ذہانت کا دائرہ وسیع کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ آئیے، اس امر کا جائزہ لیں کہ ذہانت کا دائرہ کس کس طرح وسیع کیا جاسکتا ہے۔

  • اعمال میں تنوع پیدا کرکے

جو لوگ لگے بندھے کام کرتے ہیں اُن کے ذہن بھی لگے بندھے انداز سے کام کرتے رہتے ہیں۔ ذہانت بڑھانے اور ذہن کو زیادہ کارگر  انداز سے بہ رُوئے کار لانے کی خاطر لازم ہے کہ انسان اپنے کام میں تنوع پیدا کرے۔ معاشی سرگرمیوں میں تنوع پیدا کرنے سے ذہن کو زیادہ کھل کر کام کرنے کا موقع ملتا ہے اور وہ بعض چیلنجوں سے بھی اچھی طرح نپٹنے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔

  • وقت کے بہتر نظم و نسق سے

جو لوگ اپنے وقت کو ڈھنگ سے استعمال کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں وہ دراصل یہ ثابت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ذہن کو بہ رُوئے کار لانا سیکھ لیا ہے۔ جب تک وقت کو ترتیب اور تنظیم سے برتنے کا ہنر نہیں سیکھ لیا جاتا تب تک ذہن کے معاملات بھی قابو میں نہیں آتے۔ وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہو اور کچھ نہ ہو پارہا ہو تو ذہن کی الجھن بڑھتی ہے۔ ذہن کو بہتر انداز سے کام پر لگانے کی خاطر وقت کی بہتر تنظیم و تطبیق ناگزیر ہے۔

  • مطالعے کی عادت اپنائیے

انسان جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ یا تو مطالعے کی بنیاد پر ہوتا ہے یا پھر مشاہدے کی بنیاد پر۔ جو کچھ ہم پڑھتے ہیں وہ ذہن کو وسعت عطا کرتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا ذہن زیادہ موثر انداز سے کام کرے تو ناگزیر ہے کہ روزانہ کچھ نہ کچھ پڑھیے۔ مطالعہ آپ کے ذہن کو وسعت عطا کرے گا اور آپ بہت کچھ کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ ذہن اُتنی ہی جلا پاتا ہے جتنا ہم مطالعہ کرتے ہیں۔

  • اپنی قسمت خود بنانے کی عادت ڈالیے

ذہن اُسی وقت موثر طور پر کام کرتا ہے جب اس سے کام لیا جاتا ہے۔ اگر آپ بیشتر معاملات میں دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے تو ذہن ڈھنگ سے کام نہیں کر پائے گا۔ ذہن کی کارکردگی اسی وقت بہتر ہو پاتی ہے جب اسے کچھ کرنے کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیلنج درپیش ہو تو ذہن زیادہ کارگر انداز سے کام کرتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی ذہانت بڑھے تو ناگزیر ہے کہ اپنے معاملات خود درست کیجیے۔

  • علم اور تجربے کی شراکت

جو کچھ بھی آپ جانتے ہں وہ دوسروں تک پہنچائیے۔ یہ عمل آپ کو ذہنی ہی  نہیں، روحانی سکون بھی عطا کرے گا۔ دوسروں کے پاس جو علم اور تجربہ ہے وہ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔ یہ عمل بھی آپ کو غیر معمولی ذہنی اور روحانی سکون عطا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ انسان تنہا کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ قدم قدم پر دوسروں سے مدد لینا پڑتی ہے۔ آپ اپنے علم اور تجربے کو دوسروں تک پہنچائیں گے تو ذہن زیادہ تیزی سےاور زیادہ موثر طور پر کام کرنے لگے گا۔

***