کراچی کو قائد مل گیا

503

حق دو کراچی کی برسوں کی مسلسل جدوجہد آخر رنگ لے آئی انتیس دن کا دھرنا یقینا کراچی والوں کو کبھی بھی نہیں بھولیں گے جس کی سردیوں نے بھی آزمایا جس کی بارشوں نے بھی اور آندھی نے بھی خیمے اکھاڑ پھینکے۔ کہتے ہیں کہ سیلابی ریلا بند کی ایک ایک اینٹ کو آزماتا ہے اور جو اینٹ کمزور ہو وہاں سے رخنہ پیدا کرلیتا ہے۔ مرد کیا خواتین بھی اپنے شیر خوار بچّوں کے ساتھ اپنے حق کے لیے اس دھرنے میں شریک تھیں مگر کوئی بھی اپنی جگہ نہ چھوڑتا، ایسا لگتا تھا کہ کوئی فرض ادا کرنے یہ لوگ یہاں دھرنا دیے بیٹھے ہیں ظلم کے خلاف اور حق کے لیے جدوجہد فرض ہی تو ہے۔ ان مظلوموں کے لیے جدوجہد جنہوں نے بڑے دھوکے کھائے کبھی قومیت کے نعرے سے کبھی روٹی کپڑا مکان کے نعرے سے کبھی تبدیلی اور نئے پاکستان کے نام سے واقعی کراچی والے بڑے دکھی ہیں۔ خیر صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اس کو بھولا نہیں کہتے۔ کراچی اپنے حقیقی قائد کی تلاش میں تھا وہ قائد بھی کیسا جوان کے لیے دن رات فکر کرنے والا ان کے دکھو ں میں غمگین ہونے والا، دکھوں کو بانٹنے والا جس نے اس قوم کے نوجوان بچے اور بچیوں تک کو حالات کی بے رحم موجوں کے حوالے نہیں کیا ان کے مستقبل کو بھی تابناک بنانے کا منصوبہ بنایا کہ وہ بھی اس شہر اور ملک کے لیے سودمند بن سکیں۔ حق دو کراچی کی تحریک کئی نشیب و فراز سے گزری مگر آخر کار کراچی کو اس کا حقیقی قائد حافظ نعیم الرحمن کی صورت مل ہی گیا۔
اجتماعی غفلت کا نتیجہ قومی نقصان کی صورت نکلتا ہے اور اجتماعی بگاڑ اجتماعی کوششوں سے ہی دور ہوتا ہے۔ حادثے کئی طرح کے ہوسکتے ہیں اور کچھ حادثے تو ایسے ہوتے ہیں جو کبھی بھولے نہیں جاسکتے جیسا کہ ناصر کاظمی صاحب کا یہ شعر ملاختہ فرمائیں
انہیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہوگئے ہیں
بات کراچی کی ہورہی ہے کہ کراچی نے
اپنا سفر ایک چھوٹی سی بستی کلاچی کے نام سے شروع کیا تھا۔ سمندر کے کنارے کی یہ چھوٹی سی بستی قیام پاکستان سے پہلے ہی خطے کا اہم شہر بن چکا تھا اور قیام پاکستان کے بعد تو یہ شہر دن دوگنی رات چوکنی ترقی کرنے لگا۔ اس شہر کی پہچان یہاں کے رہنے والوں کا اسلام کے ساتھ والہانہ لگاؤ بنا یہی وجہ تھی کہ جو بھی جہاں سے آیا اس شہر نے اسے گلے لگایا اور پھر وہ یہیں کا ہوگیا سب نے مل کر اپنی صلاحیتوں سے اس شہر کو ایک باغ کی طرح سینچا جس میں ہر طرح کے پھول تھے۔ لیکن سب سے پہلے تو جنرل ایوب خان کے ہاتھوں اس گلشن کی بربادی کا سامان ہو ا کہ انہوں نے پاکستان کے اس دارالحکومت کو اسلام آباد منتقل کرکے کیا۔ اسلام آباد کا پس منظر کیا تھا یہاں نہ کوئی صنعتی سرگرمیاں تھی نہ یہاں علم و ہنر کے مراکز تھے۔ چونکہ کراچی میں ہر علاقے کے لوگ موجود تھے اور اپنا اپنا کردار اس شہر کی ترقی میں ادا کررہے تھے اس لیے یہ شہر پاکستان مرکز تھا عوام مرکز تھا مگر دارالحکومت کی منتقلی سے پاکستان پنجاب مرکرز ہوگیا۔ اس کے باوجود بھی کراچی کی ترقی رکی نہیں بلکہ کراچی ترقی کرتا چلا گیا۔ کراچی کے لوگوں کا شعور جاگ رہا تھا اس لیے اس شہر کے لوگوں نے امانت اور دیانت کی قدردانی کی اور شہر کی قیادت یعنی مئیرشپ عبدالستار افغانی کے سپرد کی پھر اس قیادت نے دن رات شہر کی خدمت کی اور شہر کا نقشہ تبدیل ہونے لگا مئیر شپ کی مدّت پوری ہونے کے بعد دوبارہ اس شہر کے لوگوں نے دوبارہ عبدالستار افغانی کے ہاتھوں میں اپنی قیادت سونپی لیکن ان کی عوام میں مقبولیت سے کراچی کے دشمن گبھرا گئے تھے پھر ایک سازش کے ذریعے ان کو مئیر شپ سے برطرف کرکے گرفتار کرلیا گیا پھر لمبے عرصے کی جدوجہد کے بعد نعمت اللہ خان اس شہر کے ناظم بنے آپ نے بھی اپنی پیرانا سالی کے باوجود جوانوں کی طرح اس شہر کی خدمت کی۔ اب یہ شہر دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہونے لگا تھا اور اگر عالمی سازش کو کھل کھیلنے کا موقع نہ ملتاتو یہ شہر دنیا کا ترقی یافتہ شہر بن چکا ہوتا اور پورے پاکستان کی معیشت دنیا کی مضبوط ترین معیشت ہوتی اور دنیا ہم سے امداد لینے آتی اور یقینا وطن عزیز کے تمام لوگوں کے لیے بھی روزگار کے دروازے کھلتے وہاں باہر کے لوگوں کے لیے روزگار کے دروازے کھلتے مگر مسئلہ یہ تھا کہ یہ شہر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہر تھا اگر کراچی ترقی کرتا تو یہ شہر دنیا بھر کے مسلم ممالک کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہوجاتا۔
کسی جنگل میں درختوں نے کلہاڑی کا پھل لے کر لکڑہارے کو اپنے طرف آتے دیکھ کر کہا کہ اب ہماری شامت آنے والی ہے یہ لکڑہارا اب ہمیں کاٹ ڈالے گا بوڑھے برگد کے درخت نے کہا کہ یہ ہمیں ہرگز نہیں کاٹ سکتا جب تک اس کو ہم میں سے کوئی نہ مل جائے۔ کچھ دنوں کے بعد جب دوبارہ لکٹرہارے کو درختوں نے اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کے ہاتھ میں کلہاڑی لکڑی کے دستے کے ساتھ اس کے پاس تھی۔ برگد کے بوڑھے درخت نے کہا کہ اب ہماری شامت ضرور آئے گی اور اب ہمیں کوئی کٹنے سے نہیں بچاسکتا کیونکہ اب اس میں ہمارا اپنا شامل ہوگیا ہے۔ محرومیوں کو بانٹنے کا ایک کھیل جس کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی صورت میں نکل چکا تھا یہی تیر بہ ہدف نسخہ تھا جس کو آزمایا جارہا تھا اسی نسخے کا دوبارہ استعمال کیا گیا لسانی عصبیت کو استعمال کیا گیا کراچی میں یہ کھیل پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کرکھیلا یہ کام دونوں پارٹیاں باہم متحد ہوکر سندھ میں کررہی تھیں اور عوام کو آپس میں لڑا رہی تھیں۔ پیپلز پارٹی سندھ اور مرکز میں حکمران تھی اس لیے یہ کام ان کے لیے آسان ہوگیا کہ یہ ایسی پالیسیاں بناتی کہ جس سے کراچی والوں کی حق تلفی ہوتی مثال کے طور پر کوٹا سسٹم ہے اس کو نافذ کروانے والی جماعت پیپلز پارٹی ہے۔ لیکن ایم کیو ایم نے صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا اور اپنی تقریروں میں اس کو ختم کرنے کی باتیں کیں مگر عملاً کوئی قدم نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے کراچی کے نوجوانوں میں احساس محرومی بڑھی ایم کیو ایم جانتی تھی کہ جس قدر محرومیاں بڑھیں گی تو ان کا کام آسان ہو جائے گا۔
کراچی کی آمدنی سے پورا پاکستان ترقی کرتا رہا اور خود کراچی کو اس کی آمدنی سے کوئی فائدہ نہ دیا گیا۔ ایم کیو ایم نے اردو بولنے والوں کو یہ سمجھانا شروع کیا کہ سندھی تمہاری حق تلفی کررہے ہیں اور پیپلز پارٹی سندھی بولنے والوں کو یہ باور کراتی رہی کہ اردو بولنے والے تمہاری حق تلفی کررہے ہیں دونوں پارٹیوں نے حقوق دلانے کا خوش کن نعرہ عوام کو دیا اور دونوں طرف نفرت کی آگ بھڑکا کر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھایا بس یہ وہ وقت تھا کراچی کی عوام نے ان سے دھوکہ کھایا اور وہ حادثہ ہوا جس کو کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا دونوں طرف آ گ بھڑکا کر دونوں پارٹیوں نے کراچی کو کھنڈروں کا شہر بنادیا۔ اس کے شہریوں کو ہر ایک سہولت سے محروم ابن محروم کردیا اس شہر کے تمام نفع بخش ادارے پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیے اور ایم کیو ایم تماشا کرتی رہی لیکن گزشتہ کئی برسوں کی جماعت کی مسلسل جدوجہد اور عوام کی خدمت نے کراچی کو یہ احساس دلادیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا ایجنڈا مشترک ہے دونوں جماعتیں کراچی دشمن اور عوام دشمن جماعتیں ہیں۔ اب کراچی اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا
ہے۔ اعلان کراچی جلسہ عام نے اس بات کو واضح کردیا ہے اور کراچی دشمن اور عوام دشمن جماعتوں کو پیغام دے دیا ہے کہ اب کراچی کی ہر لسانی اکائی متحد ہے اور اب آنے والے دنوں میں ایوان اقتدار میں انتشار پیدا ہوگا۔ بڑی مدّت کے بعد اپنی انتھک جدوجہد سے حافظ نعیم الرحمن نے ثابت کردیا کہ وہی کراچی کے حقیقی قائد ہیں۔ کراچی حافظ نعیم الرحمن کو پہچان چکا ہے کیونکہ سب کا ماضی کراچی کے عوام کے سامنے ہے۔ اب حق دو کراچی پہلے مرحلے کی کامیابی کے ساتھ دوسرے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔