عمران خان فائرنگ کیس میں ’’پولی گراف ٹیسٹ‘‘

598

گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی عدالت نے،چیئر مین پی ٹی آئی پر حملہ کرنے والے ملزم نوید کے وکیل کی درخواست پر عمران خان سمیت تمام زخمیوں کے پولی گرافک ٹیسٹ کرانے اور فرانزک کے لیے موبائل فونز قبضہ میں لینے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے، فریقین کو انیس جنوری کے لیے نوٹس جاری کر دیے ہیں، آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ پولی گراف ٹیسٹ کیا ہوتا ہے، اور کیسے کیا جاتا ہے، اور اس کی قانونی اہمیت کیا ہے، پولی گرافک ٹیسٹ جھوٹ پکڑنے کا ایک ٹیسٹ ہے، جو ایک ایسی مشین کی مدد سے کیا جاتا ہے، جو انسان کے جسم میں پیدا ہونے والی مختلف طبعی تبدیلیوں کی مدد سے اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آیا وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ ۔پولی گرافک ٹیسٹ میں ملزم کے ہاتھوں کے ساتھ ایک مخصوص مشین کی تاریں لگا دی جاتی ہیں، جو ملزم کے جسم کے افعال چیک کر کے انہیں ریکارڈ کرتی ہے، اس دوران ایک یا ایک سے زیادہ تفتیش کار ملزم سے سوال پوچھتے ہیں، اور ساتھ ہی مشین پر بھی نظر رکھتے ہیں، کہ ملزم کے جوابوں کے دوران مشین کیا دکھا رہی ہے، اس ٹیسٹ کے پیچھے اصول یہ ہے کہ سچ بولتے وقت انسان کا جسم معمول کے مطابق کام کرتا رہتا ہے، جبکہ جھوٹ بولتے وقت انسان کے جسم کے اندر کشمکش چلتی رہی ہوتی ہے، اسے کچھ دیر تک سوچنا پڑتا ہے، اس کے نتیجے میں اس کے دل کی دھڑکن، خون کا دبائو، سانس کی رفتار وغیرہ بڑھ جاتے ہیں، اور جلد پر ہلکے پسینے کی تہہ نمودار ہو جاتی ہے، یہ ساری علامات پولی گراف مشین کی مددسے ناپی جاسکتی ہیں، اور جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے یا سچ۔
پولی گراف ٹیسٹ صرف پولیس ملزموں کا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے استعمال نہیں کرتی، بلکہ انہیں مختلف اداروں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً بعض حساس اداروں میں ملازم بھرتی کرتے وقت بھی ان کی اسکریننگ کے لیے پولی گراف ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق پولی گراف ٹیسٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اور اسے بطور ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ صرف پولی گراف ٹیسٹ ہی نہیں بلکہ پولیس کی حراست میں موجود کسی بھی ملزم سے کیے جانے والے اعتراف جرم کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، عدالت میں ملزم بڑی آسانی سے اس سے انکار کر سکتا ہے، بحرحال انسداد دہشت گردی عدالت گوجرانوالہ نے، چیئرمین پی ٹی آئی پر حملہ کرنے والے ملزم نوید کے وکیل کی درخواست پر عمران خان سمیت تمام زخمیوں کے پولی گرافک ٹیسٹ کرانے اور فرانزک کے لیے موبائل فونز قبضہ میں لینے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے، سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
سوموار کو انسداد دہشت گردی عدالت گوجرانوالہ میں عمران خان فائرنگ کیس کی سماعت ہوئی، عدالت میں ملزم نوید کے وکیل میاں دائود نے موقف اختیار کیا کہ، اس مقدمے میں جے آئی ٹی نے ناقابل قبول شہادت ہوتے ہوئے بھی ملزم نوید کا پولی گرافک ٹیسٹ کرایا، اور اس کے موبائل فونز کا فرانزک بھی کرایا جبکہ ملزم کا دوسرا پولی گرافک ٹیسٹ کرانے کے لیے جسمانی ریمانڈ بھی لیا، اس لیے عمران خان سمیت ایف آئی آرکے تمام گیارہ زخمیوں کے پولی گرافک ٹیسٹ کرانے اور فرانزک کے لیے ان کے موبائل فونز قبضے میں لینے کا بھی حکم دیا جائے، وکیل نے کہا کہ کیونکہ عمران خان پہلے دن سے اس وقوعہ کی بابت جھوٹ بول رہے ہیں، اور متضاد بیانات دے رہے ہیں، ممکن ہے کہ تمام زخمیوں کے پولی گرافک ٹیسٹوں کی وجہ سے اصل صورت حال واضح ہوجائے، اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چودھری نے وقوعہ کے دن چار بج کر بتیس منٹ پر اپنی ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ انہیں ایک دن پہلے پتا چل گیا تھا کہ وزیر آباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہو گا، مگر اس کے باوجود جے آئی ٹی نے سینیٹر اعجاز چودھری کا موبائل فون قبضے میں لیکر فرانزک نہیں کرایا، جو کیس کے ثبوت ضائع کرنے اور نظر انداز کرنے کے زمرے میں آتا ہے، لہٰذا عدالت اعجاز چودھری کا موبائل فون بھی قبضے میں لینے کا حکم دے، ملزم نویدکے وکیل میاں دائود نے مزید دو متفرق درخواستیں دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عمران خان سمیت گیارہ زخمیوں کے میڈیکل کرائے گئے ہیں، مگر یہ میڈیکل رپورٹیں ملزم کو نہیں دی جا رہیں، جو اس کا قانونی حق ہے، کیونکہ ملزم کو یقین ہے کہ ایف آئی آر کے تمام زخمیوں کے میڈیکل جعلی اور بوگس ہیں، لہٰذا میڈیکل رپورٹیں فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔ عدالت نے تمام درخواستوں پرسماعت کے بعد جے آئی ٹی، مدعی مقدمہ ودیگر تفتیشی افسران اور عمران خان سمیت دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انیس جنوری تک جواب طلب کر لیا ہے، اب دیکھتے ہیں انیس جنوری کو عدالت اس کیس کی سماعت پر کیا فیصلہ کرتی ہے۔