امارتِ اسلامیہ افغانستان کے نام

653

آج کل پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر آئی ہوئی ہے، جو ٹی ٹی پی کے نام منسوب ہے، یہ اہل ِ پاکستان کے لیے انتہائی تکلیف دہ امر ہے، اس موقع پر امارتِ اسلامیہ افغانستان کے نام چند گزارشات پیش ِ خدمت ہیں، پاکستان اور افغانستان دو پڑوسی اسلامی ملک ہیں، علامہ اقبال نے کہا ہے:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملّتِ افغان در آن پیکرِ دل است
از فساد اُو، فساد آسیا
از گشاد او، گشاد آسیا
تا دل آزاد است، آزاد است تن
ورنہ کاہی در رہِ باد است تن
مفہومی ترجمہ: ’’براعظم ایشیا ایک پیکر ِ آب و گل یعنی ایک باہم مربوط جغرافیائی وجود ہے، اُس میں ملّت ِ افغان کی حیثیت ایسی ہے جیسے جسم میں دل ہوتا ہے۔ حدیث پاک کی رُو سے دل ٹھیک ٹھیک کام کر رہا ہو تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے، اگر دل میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو پورا جسمانی نظام بگڑ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ملت ِ افغان کی مشکلات کی گِرہ کھُل جائے تو پورے ایشیا کے لیے سلامتی کا باعث ہے، اگراس میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو پورا خطہ متاثر ہوتا ہے، جب تک دل آزاد رہتا ہے، پورا بدن آزادی کی نعمت سے بہرہ وَر ہوتا ہے، ورنہ وہ ناخوشگوار تندو تیز ہوا کے آگے ایک تنکے کی مانند اُڑ جاتا ہے، بکھر جاتا ہے‘‘۔
برِّصغیر پاک وہند کو بعض اہل ِ فکر نے اپنی جگہ ایک بر ِ اعظم سے بھی تعبیر کیا ہے، ظاہر ہے اُس وقت علامہ اقبال کی نظر میں یہی خطہ تھا، اُس وقت تک دنیا آج کی طرح سمٹ کر گلوبل ولیج نہیں بنی تھی۔ افغانستان کی سرحدیں پاکستان، ایران، ازبکستان، ترکمانستان اور تاجکستان سے ملتی ہیں، چین بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ افغانستان ایک کثیر اللِّسان اور کثیر النسل ملک ہے، اس میں پشتون، ہزارہ، تاجک، اُزبک، ترکمان اور محدود تعداد میں بلوچ بھی ہیں۔
پاک افغان سرحد کو ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کہتے ہیں، اسے برطانوی سامراج کے دور میں ’’سر ڈیورنڈ‘‘ نے امیر ِکابل عبدالرحمن خان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت طے کیا تھا، ہمیں معلوم ہے کہ طالبان سمیت افغانستان کی کسی حکومت نے شرحِ صدر کے ساتھ اسے کبھی بھی مستقل سرحد تسلیم نہیں کیا، لیکن واقعاتی اور نفس الامری حقیقت یہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان یہی مستقل سرحد ہے، اسے بدلا نہیں جاسکتا اور بین الاقوامی قانون کی رُو سے دونوں ممالک پر اس کا احترام واجب اور یہی دونوں کے مفاد میں ہے، پاکستان نے دراندازی کو روکنے کے لیے سرحد پر باڑ بھی لگا رکھی ہے۔
افغانستان خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے، اس کی سمندر تک رسائی نہیں ہے۔ لہٰذا افغانستان کی بین الاقوامی تجارت اور معیشت غیر عَلانیہ طور پر پاکستان سے جڑی ہوئی ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی سامان کی ترسیل قانونی طور پر بھی جاری رہتی ہے اور اسمگلنگ کا سلسلہ بھی کسی دور میں رکا نہیں ہے۔ یہ تجارتی لحاظ سے پاکستان کے لیے مفید بھی ہے کہ چار کروڑ کی مارکیٹ دستیاب ہے اور اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ اشیاء جو پاکستان میں درآمد ہوکر غیرقانونی طریقے سے افغانستان منتقل ہوتی ہیں، اُن کے زرِ مبادلہ کا بوجھ پاکستان پر پڑتا ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے: ’’آج کل پاکستان سے ڈالر اسمگل ہوکر افغانستان جارہے ہیں، اس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کی قلت پیدا ہورہی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر روز بروز گر رہی ہے، پاکستان میں مہنگائی کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ بعض ذرائع نے بتایا: پاکستانی بینکوں نے غیرسرکاری طور پر کہا ہے: ’’کریڈٹ کارڈ پر جوخریداری ہوگی، اُس میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی کٹوتی اوپن مارکیٹ ریٹ پر کی جائے گی‘‘۔
سوویت یونین کے خلاف جہادِ افغانستان میں پاکستان بیس کیمپ بنا، اس سے مراد وہ جگہ جہاں سے کسی مہم کی منصوبہ بندی کی جاتی ہو، سامانِ جنگ اور افرادی قوت کی فراہمی کا انتظام ہو، نیز برسرِ پیکار مجاہدین کے لیے جائے پناہ بھی ہو۔ جہادِ افغانستان کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر پاکستان میں افغان مہاجرین کی نقل ِ مکانی ہوئی، جگہ جگہ پناہ گزینوں کے کیمپ بنے اور دنیا بھر سے مجاہدین نے اس خطے کا رُخ کیا، اُسی دور میں پاکستان میں منشّیات اور اسلحہ کی فراوانی ہوئی۔ پاکستانی پاسپورٹ پر بڑی تعداد میں افغان مغربی ممالک میں گئے، آج وہ اپنے خاندانوں سمیت اُن ممالک میں آرام وآسائش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں مستقل طورآباد ہوگئی ہے، بعض کے بڑے بڑے کاروبار ہیں، یہ سب سہولتیں انہیں پاکستان کی بدولت نصیب ہوئیں۔ جہادِ افغانستان کے دوران اور نائن الیون کے بعد افغان مہاجرین ایران بھی گئے، لیکن انہیں وہاں کیمپوں میں کڑی نگرانی میں رکھا گیا، معاشرے میں ضم ہونے اور تجارت کے کھلے مواقع نہیں دیے گئے، نہ انہیں ایرانی پاسپورٹ فراہم کیے گئے کہ وہ مغربی دنیا کی طرف طلب ِ معاش یا پناہ کے لیے نکل جائیں، فرق واضح ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد طالبان کے پہلے دور کے علاوہ کوئی ایسا دور نہیں آیا کہ افغانستان اور پاکستان میں سو فی صد اعتماد کا رشتہ قائم ہوا ہو، حکومتوں کی سطح پر تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہا ہے، لیکن عوامی سطح پر ہرطرح کے حالات میں افغان باشندوں کی پاکستان میں آمد ورفت اور کاروباری سلسلہ کبھی موقوف نہیں ہوا۔
مشرف دور میں نائن الیون کے بعد امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے افغانستان پر ظالمانہ یلغار کی، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان مغربی ممالک کا حلیف بنا، پاکستانی سرزمین بھی بعض صورتوں میں افغانستان میں کارروائیوں کے لیے استعمال ہوئی، افغانوں کی طرح پاکستانیوں کے لیے بھی یہ تکلیف دہ امر تھا، اس سے جفا کا واضح تاثر بھی پیدا ہوا۔ اس کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان دونوں نے بے پناہ نقصانات برداشت کیے، افغانوں کو بھی بجا طور پر شکایات پیدا ہوئیں۔ دوسری جانب ناٹو اتحادی پاکستان کو استعمال بھی کرتے رہے اور شک وشبہے کی نگاہ سے بھی دیکھتے رہے، کیونکہ اُن کی نظر میں پاکستان کا کردار دوغلے پن کا تھا، ہم دہشت گردی کے خلاف ناٹو اتحادیوں کے حلیف بھی تھے اور کسی حد تک طالبان قیادت کو تحفظ بھی فراہم کر رہے تھے، یعنی پاکستان کے لیے کھلے عام نہ طالبان کی حمایت ممکن تھی اور نہ اُن سے قطعی لاتعلقی اختیار کرسکتے تھے۔ اس لیے دونوں کو پاکستان سے شکایات رہیں، الغرض یہ دور خیروشر کا مجموعہ رہا۔
کابل میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کی حکومت کے دوبارہ قیام اور پورے افغانستان پر اُن کا اقتدار مستحکم ہونے کے بعد امید تھی کہ دونوں ممالک میں تعلقات خوش گوار رہیں گے، دونوں ایک دوسرے کے ہمدرد بن کر رہیں گے اور کوشش کی جائے گی کہ یہ خطہ دوبارہ عالمی قوتوں کی آماج گاہ نہ بنے۔ لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس سطح پر باہمی اعتماد وتعاون کا رشتہ قائم ہونا چاہیے تھا، وہ نظر نہیں آرہا، ماضی کی طرح دونوں طرف سے کچھ برسرِ عام اور کچھ زیرِ لب شکایات سننے میں آتی ہیں۔ ہمیں علم نہیں کہ اس بے اعتمادی کے حقیقی اسباب کیا ہیں، اس کا اصل ذمے دار کون ہے اور اس کا ازالہ کیونکر ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جس طرح افغانستان کی یہ خواہش بجا ہے کہ پاکستان کی سرزمین اُس کے خلاف استعمال نہ ہو، اسی طرح پاکستان کی یہ خواہش بھی سو فی صد بجا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان کو ممکن ہے پاکستان سے حکومتی سطح پر کچھ شکایات ہوں، لیکن انہیں یہ بھی باور کرنا چاہیے کہ پاکستان کی دینی قوتیں ہمیشہ اُن کی خیرخواہ رہی ہیں، اُن کے لیے دعاگو رہی ہیں، اُنہوں نے اُن کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھا ہے اور یہ توقعات بھی وابستہ کی ہیں کہ افغانستان میں ایک مثالی اسلامی حکومت قائم ہو۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان کو سنجیدگی سے ٹی ٹی پی کا مسئلہ حل کرنے میں پاکستان کی مدد کرنی چاہیے، وہ اُن پر دبائو بھی ڈال سکتے ہیں اور انہیں قائل بھی کرسکتے ہیں۔ کسی بھی ممکنہ تصادم کے نتیجے میں دونوں طرف اسلام اور مسلمانوں کا نقصان ہے، اس سے صرف دشمنانِ اسلام کو فائدہ ہوگا۔
جس طرح افغانستان کی جغرافیائی حدود کے اندر کسی علاقے میں متوازی ریاست کا وجود ناقابل ِ برداشت ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی ریاست کے اندر ریاست کو برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایک دستوری اور قانونی حکومت قائم ہے، ایک منظّم فوج ہے، اُس کے ہوتے ہوئے داخلی فساد وانتشار کو یقینا برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ٹی ٹی پی کو پاکستان کے آئین وقانون کا احترام کرنا چاہیے، اگر وہ چاہیں تو پاکستان کے دستوری فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے وفاقی، صوبائی اور مقامی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے افغان حالات کی وجہ سے پاکستان بھی متاثر رہا ہے، اتنی قربانیوں کے بعد بجا طور پر اس خطے کے عوام کی خواہش ہے کہ دونوں ملکوں میں حالات پرامن ہوں، دونوں کے درمیان برادرانہ روابط قائم ہوں، اپنے اپنے وسائل اور حالات کے اندر رہتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کے مددگار بنیں۔ پاکستان میں ہمیشہ یہ اندیشہ رہا ہے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں عدمِ استحکام کے لیے استعمال کرتا رہا ہے، اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان کے دفاعی اور انٹیلی جنس کے اداروں میں براہِ راست روابط اور جاسوسی پر مبنی معلومات کا تبادلہ ہونا چاہیے تاکہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خطرات سے محفوظ رہیں۔
نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ماضی میں بعض پاکستانی علماء نے اپنی تحریک یا حکومت کے ایماء پرامارتِ اسلامیہ افغانستان اور ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے، لیکن وہ ناکام رہے۔ ہماری نظر میں اُس کا سبب یہ ہے کہ مذاکرات سے پہلے یہ طے نہیں کیا گیا کہ اُس کی حدود وقیود کیا ہوں گی، وہ کن مسلّمات پر مبنی ہوں گے، آیا ٹی ٹی پی کی قیادت پاکستان کی جغرافیائی حدود اور دستوری وقانونی دائرۂ کار کو تسلیم کر کے مکالمہ کرے گی یا اس کے ماورا رہ کر ایسا ہوگا۔ پس لازم ہے کہ کسی بھی قسم کے مذاکرات سے پہلے اُس کے اصول وضع کرکے اُن پر اتفاقِ رائے کیا جائے تاکہ ہر ایک کو معلوم ہو کہ مذاکرات کی ناکامی کی ذمے داری کس پر ہے اور مسلّمات سے انحراف کون کر رہا ہے۔
ٹی ٹی پی کو بھی چاہیے کہ پاکستان کو سوویت یونین یا ناٹو اتحادیوں پر قیاس نہ کریں، اُن کی افغانستان میں مداخلت کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہ تھا، نہ اُن کی افواج کو اس وطن سے محبت تھی، وہ صرف پورے خطے کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن پاکستانی افواج کا اپنے وطن کے دفاع کے لیے لڑنا اور قربانیاں پیش کرنا اُن کا دینی، ملّی اور قومی فریضہ ہے، وہ اپنے وطن کے تحفظ کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں اور پوری قوم کی حمایت بھی انہیں حاصل ہے۔