پاک افغان جنگ تاریخی حماقت

501

افغانستان کو سلطنتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا بلیک ہول ہے چشم فلک نے جس میں اپنے دور کی تین بڑی طاقتوں کے وسائل اور قوت ودبدبے کے دیوہیکل جہاز ڈوبتے دیکھے ہیں۔ اس میں خطے کے اندورنی جغرافیہ بیرونی محل وقوع اور عوم کی سخت کوشی کا گہرا دخل ہے چونکہ افغانستان چھے ملکوں کے درمیان خشکی میں گھرا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعداد گھٹتی بڑھتی رہی ہے جیسا کہ سوویت یونین کے دور میں ایک ملک کی سرحد اب تین ملکوں تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان کی سرحد میں بدل چکی ہے۔ پاکستان، چین اور ایران کی تین سرحدیں مستقل رہی ہیں۔ اس لیے کوئی بھی ملک جنگ چھڑتے ہی حالات کی آگ تاپنے یہاں پہنچ جاتا ہے۔ افغانوں کی مزاحمت اور لڑائی جس ملک کے مفاد میں ہوتی ہے وہ اس میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ تاج برطانیہ کی شکست تو تاریخ کا قصہ ہے مگر سوویت یونین اور امریکا کی ہزیمت اور اپنے مقاصد حاصل کیے بغیر رخصتی تو ابھی کل کی بات ہے اور آج بھی دنیا ان واقعات کے مضر اثرات بھگت رہی ہے۔ سوویت یونین کے سوختہ ٹینک اور بگرام ائر بیس کی ارضی جنت میں امریکی سپاہیوں کا بکھرا سامان آج بھی ماضی کی داستان کا تسلسل ہے۔
امریکا نے سوویت یونین کی سولو فلائٹ کے بجائے افغانستان کو ناٹو اور ایساف ملکوں کی پوری بارات کے ساتھ فتح کرنے کی حکمت عملی اپنا ئی مگر یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات کی چٹان سے سرٹکرا کر سارے باراتی ایک ایک کرکے رخصت لیتے رہے یہاں تک ناٹو بھی اس بوجھ اور شوق کو وہیں پٹخ کر چلی گئی اور آخر میں امریکا یہاں تنہا رہ گیا۔ تاریخ کا سبق ازبر کرکے جس ملک نے افغانستان میں اپنے فوجی اتارنے سے گریز کا راستہ اختیار کیا وہ بھارت تھا۔ امریکا نے بہت کوشش کی کہ بھارت اتحادی افواج کی عملی مدد کے لیے اپنی فوج یہاں اُتارے مگر بھارت نے فوجی کردار کے سوا ہر کردار ا دا کرنے پر رضا مند ی ظاہر کی۔ بھارت نے پیسہ بہا کر افغانستان میں اپنا کردار ادا کیا مگر باقاعدہ فوج اُتارنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ کابل کا پرشکوہ پارلیمنٹ ہائوس کی تعمیر ہو یا بڑی سڑکیں اور ڈیم بھارت نے افغانستان میں فوجی موجودگی کے سوا ہر کا م کیا۔ بعد میں امریکا کو بھی احساس ہوگیا تھا کہ اس نے افغانستان میں فوج اُتار کر درست فیصلہ نہیں کیا۔ اس کا اظہار افپاک کے نام سے قائم امریکی ادارے کے سربراہ آنجہانی رچرڈ ہالبروک نے علاقے کے فضائی دورے کے بعد کیا تھا کہ یہ علاقے توتے کی چونچ کی طرح جن میں داخل ہونے کا راستہ تو ہے مگر واپسی بہت مشکل ہے۔
پاکستان اور افغانستان میں حکومتی اور ریاستی سطح پر کشیدگی کے شعلے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں کے درمیان بیان بازی ہونے لگی ہے۔ بات بڑھتے بڑھتے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی دھمکیوں اور اس پر لفظی ردعمل تک پہنچ گئی ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اگر افغانستان سے حملوں کا سلسلہ نہ رکا تو پاکستان افغانستان میں کارروائی کرکے گا۔ جس کے جواب میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایسی کسی کوشش کے سنگین نتائج کا انتباہ کیا ہے۔ اسی دوران افغانستان کے ایک اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے ننگر ہار علاقے میں فضائی کارروائی کی ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی ہے تاہم کابل حکومت نے اس رپورٹ پر خاموشی اختیار کی ہے۔ اس رپورٹ اور کارروائی کی حقیقت کیا ہے اور اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں یہ آنے والے دنوں میں واضح ہوجائے گا۔ اگر یہ کارروائی طالبان حکومت کی رضامندی سے حکومت پاکستان نے کی ہے تو اس کا مطلب اور مفہوم کچھ اور ہے اگر یہ کارروائی طالبان حکومت کو نظر انداز کرکے امریکا کی طرف سے یا امریکا کے کہنے پر ہوئی ہے تو اس کا مطلب بھی کچھ اور ہے اور اس کے نتائج بھی قطعی مختلف ہوسکتے ہیں۔ یہ معما طالبان کی حکومت ہی حل کر سکتی ہے۔
افغانستان میں ایسے عناصر موجود ہیں جو طالبان کی رٹ کو چیلنج کیے ہوئے ہیں اور پاکستان کو اپنا نشانہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں ایسے ہی عناصر کے بارے میں طالبان حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرنے والے داعش کے آٹھ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ طالبان حکومت کا یہ اعلان بتا رہا ہے کہ افغانستان میں ایسے عناصر موجود ہیں جو طالبان کی رٹ کو چیلنج بھی کر رہے ہیں اور اس لڑکھڑاتی انتظامیہ کے لیے جو ابھی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت بھی نہیں بننے پائی کے لیے مسائل پید ا کرنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔
داعش ایک ایسی تنظیم ہے جس کا کردار بھی مشکوک رہا ہے عراق شام سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں اس کے ڈانڈے مغربی ایجنسیوں سے ملتے رہے ہیں۔ چند ماہ قبل پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں پراسرار انداز میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان فوجی اور سفارتی کشیدگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بھارت کے ٹیلی ویژن چینلوں پر خوشی کے شادیانے بج اُٹھے کہ پاکستان خود اپنی تخلیق کے ہاتھوں مشکلات کا شکار ہو رہا ہے اور یہ مکافات ِ عمل ہے۔ اسی دور امریکا کے سفارت کار نیڈ پرائس نے اعلان کیا کہ پاکستان افغانستان سے ہونے والے حملوں کو روکنے کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان میں اشرف غنی اور حامد کرزئی کے ادوار میں بھی حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ٹی ٹی پی جب افغانستان میں بیٹھ کر اے پی ایس جیسے حملے منظم کر رہی تھی تو امریکا نے پھوٹے منہ سے بھی پاکستان کے جوابی دفاع کی وکالت نہیں کی بلکہ جب پاکستان نے باڑھ لگانے کا فیصلہ کیا تو کابل کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ امریکا بھی کبیدہ خاطر تھا۔ پاکستان اور افغانستان کو ہاتھ پائوں باندھ کر حالات اور مقدر کی ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں یہ سوال اُٹھنے لگا ہے کہ افغانستان کی سرحدیں چھے ملکوں کے ساتھ ملتی ہیں اور ہر سرحد پر طورخم اور چمن جیسے پھاٹک بھی ہیں اور آمدو رفت بھی جاری ہے مگر صرف ایک ملک پاکستان ہی کے ساتھ افغانستان کے معاملات خرابی کی انتہائوں کو کیوں چھورہے ہیں؟ ایسے میں جب پاکستان بزعم خود افغانوں کا مدد گار اور معاون ومحسن بھی کہلاتا ہے۔ چین اور ایران کے ساتھ ان کے بڑے اور طویل المیعاد تجارتی اور تعمیراتی معاہدات ہو رہے ہیں روس سے وہ ماضی بھلا کر سستا تیل اور گندم خرید رہے ہیں جبکہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی تیاریاں اور دھمکیوں کا تبادلہ ہورہا ہے۔ امریکا افغانستان میں فضائی کارروائیوں کے لیے پاکستان سے اڈے مانگ رہا ہے۔ ان اڈوں سے افغانوں پر گل پاشی تو نہیں ہوگی لامحالہ بمباری ہی ہوگی۔ جس میں ماضی کی طرح کولیٹرل ڈیمج یعنی اجتماعی نقصانات ہوں گے۔ افغان اسے اپنی خودمختاری پر حملے کے تناظر میں دیکھیں گے اور یوں پاکستان کا کردار افغانوں کے معاون کے بجائے حملہ آور کے معاون کا ہوجائے گا۔ ایسے میں اگر دونوں ملکوں میں جنگ کی حماقت ہوتی ہے جس کا منصوبہ ہے تو یہ سراسر تاریخ کا دھارا موڑنے کی کوشش کہلائے گی جس کا اصل مقصد واہگہ پر نصب دشمنی کے سائن بورڈ کو طورخم میں نصب کرنا ہے۔ پھر پہلی پاک افغان جنگ کے نام سے ایک نئی تاریخ رقم ہونے کا آغاز ہوگا جس میں پاک بھارت جنگوں کی تاریخ غیر اہم ہو کر رہ جائے گی۔ جنگ بری چیز ہے یہ لاشوں اور آہوں اور سسکیوں کا نام ہے مگر واہگہ میں جنگ کی یہ برائی طورخم میں اچھائی کیوں بننے جا رہی ہے؟