احتساب ومحاسبہ (حصہ دوم)

592

پس قرآن و سنت میں اصلاحِ نفس کے لیے جو نسخہ ٔ کیمیا عطا کیا ہے، وہ ’’احتسابِ نفس‘‘ ہے۔ رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’دانا شخص وہ ہے، جو اپنے نفسِ امّارہ کی باطل خواہشات پر قابو پا لے اورآخرت کے لیے کام کرے اور عاجز شخص وہ ہے جو اپنی نفسانی خواہشات کا تابع ہو جائے اور اللہ سے خیر کی تمنا کرے‘‘۔ امام ترمذیؒ کہتے ہیں: اس کے معنی ہیں: ’’یوم الحساب سے پہلے خود اپنا احتساب کرنا‘‘۔ سیدنا عمر بن خطابؓ نے فرمایا: قبل اس کے کہ اللہ کی عدالت میں تمہاری جوابدہی ہو‘ خود ہی اپنا احتساب کر لو اور ایک بڑے معرکۂ امتحان کے لیے اپنے آپ کو تیار کرو، جس نے دنیا میں اپنا احتساب کر لیا، آخرت میں اْس کا حساب آسان ہو جائے گا‘‘۔ میمون بن مہران نے کہا: ’’جو شخص اپنا بھی ویسا ہی اتنا کڑا احتساب نہ کرے، جیساکہ اپنے مخالف فریق کا کرتا ہے، تو وہ متقی نہیں بن سکتا‘‘۔ (ترمذی) احادیثِ مبارکہ میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ رسول اللہؐ کے بار بار موقع دینے کے باوجود ایک شخص اپنے آپ کو سزا کے لیے پیش کرتا ہے:
سیدنا بْرَیدَہؓ بیان کرتے ہیں: ’’ماعز بن مالک رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہؐ! مجھے پاک کیجیے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: تجھ پر افسوس، اللہ سے توبہ استغفار کرو، وہ تھوڑی دور گیا اور پھر واپس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہؐ! مجھے پاک کر دیجیے، رسول اللہؐ نے اْس کو پھر وہی جواب دیا، حتیٰ کہ جب وہ چوتھی مرتبہ آیا، تو آپؐ نے پوچھا: میں تجھے کس چیز سے پاک کروں؟ اْس نے عرض کیا: زنا کے جرم سے۔ آپؐ نے صحابہ سے پوچھا: کیا اس کا دماغی توازن درست ہے؟ تو آپؐ کو بتایا گیا کہ اس کے ہوش و حواس ٹھیک کام کر رہے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا: اس نے شراب تو نہیں پی؟ ایک شخص نے اٹھ کر اسے سونگھا اور بتایا کہ اس نے شراب نہیں پی۔ آپؐ نے فرمایا: تم شادی شدہ ہو؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں! تو رسول اللہؐ نے اْس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا (گویا اْس کا چار مرتبہ اعترافِ جرم چار گواہیوں کے برابر ہوگیا)۔ اس پر اْن کے بارے میں لوگوں کی دو آراء ہو گئیں؛ ایک گروہ نے کہا: ماعز کے بدترین فعل نے اْسے ہلاک کر دیا اور اس کے گناہ نے اس کو گھیر لیا۔ دوسرے گروہ نے کہا: کیا ماعز کی توبہ سے بھی بڑی توبہ کسی کی ہو سکتی ہے کہ وہ خود رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اپنے آپ کو سنگسار کرنے کے لیے پیش کر دیا۔ دو تین دن کے بعد نبی کریمؐ صحابہ کی مجلس میں آئے اور فرمایا: ماعز بن مالک کے لیے اللہ سے استغفار کرو، پس تمام صحابہ نے اْن کے لیے استغفار کیا، پھر رسول اللہؐ نے فرمایا: ماعز نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر پوری امت کے گناہگاروں میں تقسیم کر دی جائے تو اْن سب کے لیے کافی ہو جائے‘‘۔ (سنن دار قطنی)
سیدنا ثعلبہ انصاریؓ بیان کرتے ہیں: عمرو بن سمْرَہ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہؐ! میں نے بنی فلاں کا اونٹ چوری کیا ہے، سو مجھے (اس گناہ کی آلودگی سے) پاک کر دیجیے۔ رسول اللہؐ نے اْن لوگوں کو بْلایا، انہوں نے عرض کیا: بے شک ہمارا اونٹ گم ہو گیا ہے، سو (اقرارِ جرم کی بنا پر) رسول اللہؐ نے حَدِّ سَرِقہ جاری کرنے کا حکم فرمایا اور اْس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ راوی بیان کرتے ہیں: میں دیکھ رہا تھا کہ جب اْس کا ہاتھ کاٹا گیا تو اْس نے (اپنے ہاتھ کومخاطَب کر کے) یہ کلمات کہے: ’’اللہ کا شکر ہے کہ اْس نے مجھے تجھ سے پاک کر دیا، تو نے تو چاہا تھا کہ میرے پورے جسم کو جہنم میں داخل کر دے‘‘۔ (ابن ماجہ)
سیدنا عبداللہؓ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہؐ! میں نے شہر کے پرلے کنارے ایک اجنبی عورت کو پکڑ لیا اور میں نے مباشرت تو نہیں کی، لیکن بوس و کنار کیا، پس میں اب آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں، میرے بارے میں آپ جیسے چاہیں فیصلہ فرمائیں۔ سیدنا عمرؓ نے اْن سے کہا: اللہ نے تمہارے عیب پر پردہ ڈالا تھا، کاش کہ تم نے خود بھی اپنی پردہ پوشی کی ہوتی۔ راوی بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے اْسے کوئی جواب نہ دیا اور وہ شخص اٹھ کر چلا گیا۔ پھر نبیؐ نے ایک شخص کے ذریعے اْسے بلا بھیجا اور یہ آیت پڑھ کر اْسے سنائی: ’’دن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کرتے رہا کرو، بے شک نیکیاں برائیوں کے اثر کو زائل کر دیتی ہیں، یہ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے‘‘۔ (ہود: 114) حاضرین میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہؐ! کیا یہ رعایت اِس کے لیے خاص ہے؟ آپؐ نے فرمایا: سب لوگوں کے لیے ہے‘‘۔ (مسلم) اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اْس نے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب نہیں کیا تھا اور نیک اعمال کی برکت سے اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صحابۂ کرام سے بشری کمزوری سے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا تو جب تک شریعت کے مطابق اس کی تلافی نہ کر لیتے، انہیں چین نہیں آتا تھا اور آخرت کی جواب دہی کے تصور سے وہ بے قرار ہو جاتے۔
نبی کریمؐ سرکاری اور حکومتی عہدوں پر لوگوں کو خود مقرر فرماتے تھے، ایسے لوگوں کا انتخاب فرماتے جن کا تقدس، زْہد اور پاکیزگی مسلّم ہوتی۔ تقرر سے پہلے اْن کا امتحان بھی لیتے تھے اور اْن پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ جب کوئی عامل اپنے دورے سے واپس آتا تو رسول اللہؐ بذاتِ خود اْس کا محاسبہ فرماتے۔ حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا ابوحمید ساعدیؓ بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے اِبنْ الاْتَبِیَّہ (ایک روایت میں اِبنْ اللّْتبِیَّہ ہے) کو بنو سْلیم کے صدقات کی وصول یابی پر مقرر فرمایا۔ وہ رسول اللہؐ کے پاس آئے، حساب پیش کیا اور کہا: ’’یہ صدقات کا مال ہے اور یہ مال مجھے ہدیہ کیا گیا ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تم سچے ہو تو تم اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھے رہے کہ تمہارے پاس یہ تحائف آتے‘‘، پھر رسول اللہؐ نی کھڑے ہوکر خطبہ دیا اور حمد و صلوٰۃ کے بعد فرمایا: ’’میں تم میں سے کسی شخص کو کسی کام پر مقرر کرتا ہوں تو وہ آ کر مجھ سے کہتا ہے: ’’یہ آپ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے، تو وہ اگر سچا ہے تو کیوں نہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھا رہا کہ اس کے پاس یہ تحائف آتے، اللہ کی قسم تم میں سے کوئی اس مال میں سے ناحق کوئی چیز نہیں لے گا، ورنہ وہ (قیامت کے دن) اس مال کو اٹھائے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حاضر ہو گا، کوئی شخص اللہ کے پاس بلبلاتے ہوئے اونٹ کو لے کر آئے گا، کوئی ڈکراتی ہوئی گائے کو لے کر آئے گا، کوئی منمناتی ہوئی بکری کو لے کر آئے گا۔ پھر آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند فرمائے یہاں تک کہ آپؐ کی دونوں بغلوں کی سفیدی نظر آئی اور آپ نے فرمایا: کیا میں نے اللہ کا پیغام (ٹھیک ٹھیک) پہنچا نہیں دیا؟‘‘۔ (بخاری) ایک اور حدیث میں نبیِ کریمؐ نے فرمایا: ’’اے لوگو! تم میں سے جس کو ہم صدقات کی وصول یابی پر مامور کریں اور وہ ایک سوئی یا اس سے بھی کم تر چیز ہم سے چھپائے گا، تو یہ خیانت ہے اور اسے لے کر اسے قیامت کے دن آنا ہو گا‘‘۔ (المصنَّف لابن ابی شیبہ)
اسلامی ریاست میں عوام کو یہ اختیار اور حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ جب چاہیں، اپنے حکمرانوں اور صاحبِ اقتدار لوگوں کا احتساب کریں، اس لیے کہ دونوں کے باہمی تعلقات خیر خواہی پر مبنی ہوتے ہیں اور خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اگر حکمران کسی غلط روش پر چل رہا ہو، تو اْسے متنبہ کر کے اْس کی سَمت درست کر دی جائے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنے پہلے خطبۂ خلافت میں ارشاد فرمایا: ’’لوگو! میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں، حالانکہ میں تم لوگوں میں سب سے افضل (ہونے کا مدعی) نہیں ہوں، اگر میں ٹھیک ٹھیک کام کروں تو تم میری اعانت کرو اور اگر بالفرض میں راہِ راست سے ہٹ جائوں تو تم مجھے سیدھا کر دو، سچائی امانت اور جھوٹ خیانت ہے۔ (سنو!) جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے جادۂ مستقیم پر قائم رہوں، تم بھی میری اطاعت کرنا اور اگر بالفرض میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم کی اطاعت کا بندھن توڑ کر نافرمانی کے رستے پر چل پڑوں، تو پھر تم پر میری اطاعت ہرگز لازم نہیں ہوگی‘‘۔ (تاریخ الخلفا للسیوطی بحوالہ سیرۃ ابن اسحاق)
احتساب سے متعلق امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ کے چند واقعات ملاحظہ فرمائیں: ایک مرتبہ سیدنا عمرؓ نے خطاب کے دوران لوگوں سے فرمایا: ’’اگر تم میرے اندر کوئی کجی دیکھو تو کیا کرو گے؟ ایک صحابی کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے کہا: ہم اپنی تلواروں کی دھار سے اْسے سیدھا کر دیں گے، اس پر سیدنا عمرؓ نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے جس نے عمر کی رعایا میں ایسے افراد کو رکھا ہے جو اْس کی کجی کو اپنی تلواروں کی دھار سے سیدھا کر سکتے ہیں‘‘۔ (العدال الاجتماعیہ)، ’’ایک مرتبہ آپؓ خطبہ دے رہے تھے اور آپ کے جسم پردو یمنی چادریں تھیں۔ اچانک سیدنا سلمان فارسیؓ نے کھڑے ہوکر کہا: اللہ کی قسم! ہم آپ کی بات نہیں سنیں گے۔ سیدنا عمرؓ نے وجہ پوچھی تو فرمایا: پہلے یہ بتائیں کہ مالِ غنیمت میں جو یمنی چادریں آئی ہیں، اْن میں سے جب ہر ایک کے حصے میں ایک چادر آئی ہے تو آپ کے جسم پر دو چادریں کیوں ہیں؟ سیدنا عمرؓ نے اپنے بیٹے سیدنا عبداللہؓ کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے کہا: دوسری چادر اْن کے حصے کی ہے جو انہوں نے اپنے والد کو پہننے کے لیے دی ہے۔ یہ سن کر سیدنا سلمان فارسیؓ نے کہا: اب ٹھیک ہے، ہم آپ کی بات سننے کے لیے تیار ہیں، (اخبار عمرؓ) ’’ایک مرتبہ جب انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے لوگوں کو اپنی لڑکیوں کا نکاح کرتے وقت زیادہ مہر مقرر کرنے پر تنبیہ فرمائی تو ایک بوڑھی عورت نے انہیں برسرِ منبر ٹوکتے ہوئے کہا: عمر! جب اللہ تعالیٰ نے زیادہ مہر رکھنے سے منع نہیں فرمایا تو آپ اس سے روکنے والے کون ہوتے ہیں؟ یہ سن کر سیدنا عمرؓ نے اپنی بات سے رجوع کر لیا اور فرمایا: ایک عورت نے صحیح بات کی اور ایک مرد نے غلطی کی‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر)