اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر

808

اردو کے مشہور شاعر ہیں ذوق۔ انہوں نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے کہ ؎
اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام میں ہے وہ جو تکلف نہیں کرتا
ذوق نے اپنے اس شعر میں ایک انسانی رویے ’’تکلّف‘‘ کا ذکر کیا ہے ۔ اس کا آسان مطلب انسان کا بناؤٹی پن ہے۔ انسان اپنے آپ کو کسی کے سامنے ایسا بنا کر پیش کرے کہ جو وہ حقیقت میں نہ ہو۔ ایسا کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان کو شیطان اس دھوکے میں ڈال دیتا ہے کہ اگر تونے اپنے بارے میں وہی کچھ سامنے والے کے سامنے پیش کیا کہ جو تو حقیقت میں ہے اس سے تیری عزت سامنے والے کی نظر میں کم ہوجائے گی یہی اکساہٹ محرک بنتی ہے کہ انسان دوسروں کو اپنے بارے میں وہ کچھ بتاتا ہے کہ جس کا اس کے ساتھ حقیقت میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ محض دوسروں کے مقابلے میں اپنا قد اونچا کرنا چاہتا ہے جس کے نتیجے میں دوسروں پر اس کا جھوٹا رعب جمتا ہے اور اس کو وقتی لذّت یا تسکین حاصل ہوتی ہے یہ ایک ایسی نفسانی خواہش ہے جو کہ معاشرے کے اندر بگاڑ کی ایک بڑی وجہ بن کر سامنے آیا ہے۔ آج اگر معاشر ے کے مختلف دائروں میں دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے انسان پر تکّلف کا بھوت سر پر سوار ہے جس کی وجہ سے وہ ہر جگہ ذلت کی تکلیف برداشت کررہا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو جو کچھ بناکے پیش کیا ہوتا ہے اس کا بھانڈا کبھی نہ کبھی پھوٹ جاتا ہے اور اس کی حقیقت لوگوں کے سامنے آرہی ہے جس کی وجہ سے جو ریت کا محل اس کی شخصیت کا ذہنوں اور دلوں میں بنا ہوتا ہے وہ زمین بوس ہوتا ہیں۔ اس رویّہ میں انسان کی دونوں صنف گرفتار ہیں اس سے بحث نہیں کہ کون زیادہ گرفتار ہے اور کو ن کم۔ برسبیل تذکرہ، ہم یہاں آج کل کی شادیوں کا ذکر بھی کیے دیتے ہیں اور یقینا آپ کے بھی مشاہدے میں آتا ہوگا سڑک پر ایک جلوس ہے لوگ ہزاروں کی تعداد میں اس جلوس میں موجود ہیں۔ جب قریب پہنچتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ تو بارات ہے۔ سب سے آگے ایک ٹرک جس پر بڑے بڑے اسپیکر نصب ہیں اس پر واہیات قسم کے گانے بج رہے ہوتے ہیں کچھ منچلے نوجوان آتش بازی کررہے ہوتے ہیں کچھ ناچ رہے ہوتے ہیں ٹریفک جام ہورہا ہوتا ہے کچھ لوگ اندر اندر کڑھ رہے ہوتے ہیں اور زیادہ تر تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں وی گو گاڑیوں کی ایک قطار ہوتی ہے بظاہر تو ایسا لگتاہے کہ یہ ساری شاندار گاڑیاں دولہا صاحب کی ہیں اور ان کے خاندان والے بھی اتنے صاحب ثروت ہیں کہ وہ ہر سال نئی ماڈل کی گاڑیاں خریدتے ہیں۔ خیر یہ کام تو رینٹ اے کار والوں نے آسان کردیا ہے کہ کوئی بھی آدمی یہاں سے کرائے پر نئے ماڈل کی وی گو گاڑیاں کرائے پر لے سکتا ہے۔ لیکن جو جلوس باراتیوں کی شکل میں سڑک پر موجود ہے وہ تو مفت میں میّسر آگیا ہے اس لیے کہ جب گھر سے بارات چلی تھی تو باراتیوں کی تعداد سو پچاس افراد پر مشتمل تھی مگر یہاں مجروح سلطان پوری کا شعر یاد آگیا کہ
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
یہ ایک عام سی بات ہے جو دیکھنے میں سب کے آرہی ہے کس طرح دونوں فریق اپنے آپ کو ایک دوسرے سے بھاری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے لیکن جب بھابھی گھر آجاتی ہیں تو پہلے دن سے دولہے صاحب کی ایک ایک کرکے جھوٹی شان کا بھانڈا پھوٹنا شروع ہوتا ہے پھر دوسری طرف کے بھی حقائق کھلتے ہی ہوں گے
پھر جیسے کو تیسا کے مصداق۔ یہی حال ہماری قومی زندگی کا بھی ہے۔ ہماری سیاسی قیادتوں کا بھی جسم اس بیماری میں بری طرح مبتلاہے۔ وہ شادی بھی دونوں فریقین نے ایک بھاری بھرکم قرض لے کر کی تھی اور ہماری سیاسی قیادتیں بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چوراہے پر بیٹھ کر قرض کی نئی قسط کی بھیک مانگ کرلا تی ہیں بھنگڑے ڈالا کرتی ہیں اور اپنی جھوٹی شان و شوکت جتلاتی ہیں۔ کوئی توشہ خانہ کے ہیرے کھیرے کے مول خرید کر اپنے آپ کو سجاتا ہے اور ہر جگہ کہتا پھرتا ہے کہ میرا تحفہ میری مرضی تو کوئی بیرون ملک سرے محل خریدتا ہے کوئی لندن میں اپنے لیے عالیشان گھر خریدتا ہے۔ اس مرض کے جراثیم سے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرحدوں کے محافظ بھی نہیں بچے ہیں۔ ظاہر ہے یہ بھی انسان ہی ہیں یہ ایسے ہی ہے کہ جیسا کوئی بگڑا ہوا بیٹا اپنے باپ کی تجوری سے رقم چرائے اور باپ کے دشمنوں کے گھر میں اس کو رکھوائے اور اپنے تئیں یہ سمجھے کہ میں نے بڑی دانش مندی کا کام کیا ہے باپ کو پتا بھی نہیں اور رقم بھی محفوظ ہوگئی اگر کبھی باپ کو پتا چل بھی گیا تو زیادہ سے زیادہ وہ مجھے گھر سے نکال دے گا میں باپ کے دشمنوں کے گھر سے پیسے لے کر عیش کروں گا۔ مگر اس عقل کے اندھے کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ دشمن یہ بھی تو سمجھتے ہوں گے کہ جو اپنے باپ کا وفادار نہیں وہ ہمارا کیا وفا دار ہوگا۔ جب میر جعفر اور میر صادق مرگئے تو ان کی اولادیں انگریزی سرکار سے اپنی قوم سے غدّاری کا وظیفہ وصول کرنے جا یا کرتی تھیں تو دربان ان کو ان القاب سے پکارتا تھا کہ ’’غدّار میر جعفر اور غدّار میر صادق کی اولادیں حاضر ہوں!!‘‘
دنیا کا یہ حسن ہے کہ اس میں انسانوں کے درمیان ہر لحاظ سے تفاوت موجود ہے کہیں حسن و جمال کا کہیں دولت ثروت کا کہیں طاقت کا اس کے علاوہ بھی انسانوں کے درمیان کئی حیثیتوں سے تفاوت موجود ہے انسان جب اپنے سے برتر حیثیت والے کی طرف نظر کرتا ہے تو اس کے اندر احساس کمتری پیدا ہوتا ہے یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ حسرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتا ہے یہ احساس کمتری جب انسان کے اندر گہری ہونے لگے تو انسان کو اپنے سے نیچے کی طرف دیکھنا چاہیے کیونکہ کروڑوں لوگوں کو وہ نعمتیں حاصل نہیں ہیں جو اس کو حاصل ہیں تب جاکے اس کے اندر کا یہ احساس کمتری ختم ہوگا۔ کچھ برائی ایسی ہوتی ہے جو کئی برائیوں کا مجموعہ ہوتی ہے تکلّف بھی ایسی ہی برائی ہے اس ایک برائی کے اندر جھوٹ، دھوکا دہی وغیرہ شامل ہیں۔ اس بیماری سے اگر بچنا چاہے انسان تو اس کو تکّلف سے بچنا ہوگا یعنی اس کو بناوٹی پن تر ک کرکے اس کی جگہ حقیقت پسند بننا ہوگا۔ یہ عادت انسان کی حقیقی قدر دوسروں کے دل میں پیدا کرے گی یہی بات انسان کے اپنے لیے بھی اور وہ جس معاشرے میں رہتا ہے اس کے لیے بھی فائدے مند ہوگی کہ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں غلط رائے قائم نہیں کریں گے ایک حقیقی انسان جب ہی سامنے آتا ہے جب وہ بناؤٹی پن سے پرہیز کرتا ہے۔ اس برائی سے بچنے کا نسخہ تو ہمارے پاس نبی اکرم ؐ کی ذات گرامی ہے۔ آپؐ لوگوں سے ملتے تو بغیر کسی تکلّف کے حقیقی مسکراہٹ کے ساتھ، لوگوں کے ساتھ محبت کا اظہار فرماتے تو سامنے والے کو ایسا محسوس ہوتا کہ نبی کریمؐ سب سے زیادہ اس سے ہی محبت کرتے ہیں آپ ؐ مجالس میں بھی نمایاں جگہ پر بیٹھنا پسند نہ فرماتے بلکہ صحابہ کے ساتھ اس طرح تشریف فرما ہوتے کہ بعض اوقات باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو پہچاننا مشکل ہوجاتا کہ مجلس میں نبی کریم ؐ کون ہیں۔ آپؐ کے سامنے ایک بار کھانا لایا گیا تو آپؐ نے اسماء بنت یزید کو کھانے کے لیے کہا: انہوں نے کہا کہ بھوک نہیں اس پر آپؐ نے فرمایا کہ بھوک اور جھوٹ کو جمع نہ کرو (ابن ماجہ) یعنی انہوں نے تکلّف کا اظہار کیا جس کو آپ نے منع فرمایا۔