Truth and Reconciliation Commission

372

جنوبی افریقا میں سفید فام اقلیت کی نسلی حکومت تھی، نسلی امتیاز کے اس نظام کو Apartheid کہا جاتا ہے، طویل جِدّوجُہد اور قربانیوں کے بعد 27اپریل 1994 میں جنوبی افریقا سفید فام اقلیت کے تسلّط سے آزاد ہوا، آزادی کی اس جِدّوجُہد میں نیلسن منڈیلا 27سال تک اذیّت ناک قید میں پابندِ سلاسل رہے، آخرِ کار آزادی ملی اور نیلسن منڈیلا جنوبی افریقا کے پہلے براہِ راست صدر منتخب ہوئے، انہوں نے تحریکِ آزادی کا قائد ہونے کے باوجود دوسری بار صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیا اور اپنے جانشینوں کے لیے منصِب چھوڑ دیا۔
نیلسن منڈیلا بڑے قومی لیڈر تھے، بجائے اس کے کہ سفید فام نسلی اقلیت کو انتقام کا نشانہ بناتے، اُن کی نسل کُشی کرتے، اس کے بجائے انہوں نے بڑے پن کا ثبوت دیا اور ’’Truth and Reconciliation Commission‘‘ بنایا، اس کے معنی ہیں: ’’کمیشن برائے صداقت ومفاہمت‘‘۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سب اپنے اپنے جرائم اور مَظالم کا اعتراف کریں اور اس کے بعد انہیں عفوِعام (General Amnesty) دے دی جائے گی تاکہ انتقام در انتقام کا لامتناہی سلسلہ شروع کرنے کے بجائے مفاہمت کے ماحول میں ملک کو چلایا جائے اور ایک نئی خانہ جنگی کی بنیاد ڈالنے کے بجائے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالا جائے، یہ نیلسن منڈیلا کا ایک اعلیٰ قائدانہ کردار تھا۔ وہ چاہتے تو سفید فام نسلی اقلیت سے اُن کے ایک ایک ظلم کا حساب لے سکتے تھے۔
اس وقت پاکستان بھی ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے، سیاست دان ایک دوسرے سے نفرت، بُغض اور عَداوت کی انتہا پر ہیں۔ پہلے عمران خان کو اپنے بارے میں پارسائی کا دعویٰ تھا، وہ دوسروں کو پاپی، مجرم اور خطاکار سمجھتے تھے، چور اور ڈاکو کے القاب اُن کے لیے استعمال کرتے تھے، لیکن اب پتا چلا کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں، کوئی بھی کوثرو تسنیم میں دھلا ہوا نہیں ہے، بلکہ اخلاقی اعتبار سے خان صاحب سب سے پست درجے میں ہیں، اُن کا اخلاقی برتری کا دعویٰ خیالِ خام ہے، یہ مکافاتِ عمل ہی تو ہے کہ دوسروں کی پردہ دری کرنے والا آج اپنے لیے پردہ پوشی کی دلیلیں تلاش کر رہا ہے، انسان کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے انتقام اور غضب سے پناہ مانگنی چاہیے، کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو سزاوار ہے۔
سب سے زیادہ مقامِ افسوس یہ ہے کہ انہوں نے پیروکاروں کا جو جتھّا تیار کیا ہے، اُن کی کتاب میں اخلاقیات کا کوئی عنوان سِرے سے نہیں ہے، حالانکہ امریکا اور مغربی ممالک میں اخلاق وکردار کے اعتبار سے جو باتیں عام لوگوں کے لیے قابلِ لعنت وملامت نہیں ہوتیں اور انہیں اس معاشرے میں عیب نہیں سمجھا جاتا، مگر وہ بھی سیاسی قیادت کو اس بارے میں کوئی چھوٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ سیاسی رہنمائوں کو برتر اخلاقی پوزیشن میں دیکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا اُن کے براہِ راست منتخب صدر کا بھی مواخذہ ہوسکتا ہے۔ رچرڈ نِکسن کو واٹر گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے محض جھوٹ بولنے پر صدارت سے مستعفی ہونا پڑا، بِل کلنٹن کو مونیکا لیونسکی کے ساتھ جنسی روابط کے الزام پر مواخذے کے عمل سے گزرنا پڑا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بھی کیپٹل ہِل پر حملے کی حوصلہ افزائی کرنے اور ٹیکس کے معاملات میں خیانت کے الزام میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، فرق یہ ہے کہ ان کے تحقیقاتی ادارے آزاد ہیں، اُن کی غیر جانبداری پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی، جبکہ ہمارے ہاں نیب اور اعلیٰ عدلیہ جیسے اداروں کی غیرجانبداری پر بھی ہمیشہ انگلی اٹھائی جاتی رہی ہے اور اُس کے شواہد بھی موجود ہیں، فیصلوں میں سُقم بھی ہرکس وناکس کو نظر آتا ہے۔
لہٰذا بہتر ہے کہ تمام قومی سیاسی جماعتیں مل کر ماضی کے بارے میں ایک ’’Truth and Reconciliation Commission‘‘ قائم کریں، سب صدقِ دل سے اپنے اپنے جرائم کا اعتراف کریں، اللہ تعالیٰ اور قوم سے معافی مانگیں، توبہ تائب ہوں اور آئندہ قیادت کے لیے اختیارات کے استعمال، مالی دیانت اور اخلاقیات کا ایک معیار مقرر کریں اور اس کی جانچ پرکھ اور محاسبے کا نظام بھی شفاف ہونا چاہیے، کوئی عدالتی ضوابطِ کار اور پیچیدگیوں کی آڑ میں جائے پناہ تلاش نہ کرے، بلکہ امریکی سینیٹ کی کمیٹیوں کی طرح اس حوالے سے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حاملین پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیشن بنایا جائے جو دوٹوک فیصلے صادر کرے اور ان کے فیصلوں کو آئینی تحفظ حاصل ہو۔
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ غیر جانب دار اور شفاف عدالتی معیار قائم نہ کرسکی، اُن کے ریمارکس، آبزرویشن اور فیصلوں میں ایک طرف جھکائو (Tilt) واضح طور پر نظر آتا رہا ہے اور اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ہائی کورٹ اور عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کے لیے انتخاب اور تقرر کا کوئی واضح اور شفاف انتظام نہیں ہے، یہ ایک طرح سے ’’انجمنِ ستائشِ باہمی‘‘ ہے، سپریم جوڈیشل کونسل پردے کے پیچھے فیصلے کرتی ہے اور پارلیمنٹ کو اُس پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہمارے ہاں عدالت عظمیٰ میں سترہ عالی مرتبت جج صاحبان ہیں، جبکہ امریکا کی آبادی تینتیس کروڑ سے زائد ہے اور رقبے کے اعتبار سے بہت بڑا ملک ہے، اُس کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، وہ سپر پاور ہے، مگر اُس کی عدالت عظمیٰ میں جج صاحبان کی کل تعداد نَو ہے۔ صدرِ امریکا جج کو نامزد کرتا ہے اور امریکی سینیٹ کی ’’جوڈیشری کمیٹی‘‘ اُس کی پوری زندگی کی چھان بین کرتی ہے، اُس کی پیشہ ورانہ مہارت، ٹیکس ریکارڈ اور اخلاقیات کا ریکارڈ کھنگالا جاتا ہے، اُسے سوال وجواب کے لیے سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے اور پوری طرح اطمینان کرلینے کے بعد کمیٹی اُس کی منظوری دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی عدالت عظمیٰ کے جج کے لیے ریٹائرمنٹ کی کوئی مدت نہیں ہوتی، اُس کی مسنَد وفات پر یا طِبّی لحاظ سے ناقابلِ کار ہونے کی بنا پر یا وہ خود مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلے، تو تب خالی ہوتی ہے، آج بھی امریکی عدالت عظمیٰ کی ایک جج جسٹس رَتھ بیڈر گنسبرگ کی عمر ستّاسی سال ہے۔
ہمارے قومی داخلی وخارجی قرض ہماری جی ڈی پی کے برابر ہوتے جارہے ہیں، ہمارے پاس ضروری درآمدات کے لیے زرِ مبادلہ نہیں ہے، کراچی پورٹ پر درآمد شدہ مال کے کنٹینر کافی دنوں سے کھڑے ہیں، اُن کی ایل سی کھولنے کے لیے بینکوں کے پاس زرِ مبادلہ نہیں ہے، یہ ساری صورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ ملک کو اس مقام تک پہنچانے میں حسبِ توفیق سب کا حصہ شامل ہے اور اس میں خان صاحب کے دور کا حصہ تناسُب کے لحاظ سے سب سے زائد ہے، جبکہ اُن کے دور میں برسرِ زمین کوئی ایک بڑا ترقیاتی منصوبہ بھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا، پچھلی حکومت کے منصوبے بھی کھٹائی میں پڑے رہے۔ لہٰذا یہ فرض کرلینا کہ قبل از وقت انتخاب ہونے یا خان صاحب کے بالفرض دوبارہ برسرِ اقتدار آنے سے مسائل حل ہوجائیں گے، خام خیالی ہے۔
ہمارے ہاں بیرونی قرضوں کی اقساط مع سود کی ادائی اور زرِ مبادلہ کے توازن کو برقرار رکھنے کا ایک ہی حل اختیار کیا جاتا ہے اور وہ ہے: آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک اور سعودی عرب وچین وغیرہ سے مزید قرضوں کا حصول، اس کے نتیجے میں بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ ہماری نظر میں نئے قرض لینے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ پرانے قرضوں کی ادائی کے لیے مہلت طلب کی جائے، چند برسوں کے لیے اقساط کی ادائی کو موقوف کیا جائے، سود کی اقساط کی ادائی کو معاف کرایا جائے اور اپنے انتظامی ودفاعی اخراجات کو اپنے وسائل کے اندر رکھنے کی حکمتِ عملی ترتیب دی جائے۔ برآمدات پر مبنی ایسی صنعتی پالیسی تشکیل دی جائے جو عالمی مسابقت کے ماحول میں اپنی مصنوعات کے لیے مارکیٹ پیدا کی جاسکے اور اس حوالے سے چین کی پالیسی کو رول ماڈل بنایا جاسکتا ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو زرِ مبادلہ کی ترسیل کے لیے ترغیبات دی جائیں اور ملک سے باہر زرِ مبادلہ کی غیر قانونی ترسیل کے راستے بند کیے جائیں۔
حکومت محض ناکام انتظامی اقدامات کے اعلان کے بجائے ایوانِ صنعت وتجارت کے ساتھ مذاکرات کرے، انہیں ملک کی حقیقی اقتصادی صورتِ حال اور مشکلات سے آگاہ کرے، مارکیٹوں کو رضاکارانہ طور پر سرِ شام بند کرنے کی ترغیب دے تاکہ توانائی کے اخراجات کم کیے جاسکیں، مغربی ممالک میں عام مارکیٹیں سرِ شام بند ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور ہم نے رات کو پردہ پوش بنایا اور دن کو روزی کمانے کا ذریعہ بنایا‘‘، (النبا: 10-11) نیز فرمایا: ’’اللہ ہی ہے جس نے تمہارے آرام کے لیے رات بنائی اور دن بنایا تاکہ اس میں (اپنے معاش کے ذرائع) دیکھ سکو، یقینا اللہ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے‘‘۔ (المومن: 61) مگر ہم نے قدرت کے بنائے ہوئے نظام کو بدل دیا، راتوں کو جاگتے ہیں اور دن کو سوتے ہیں، جبکہ لندن میں ہیتھرو ائرپورٹ پر راتوں کو فضائی پروازیں بند ہوتی ہیں تاکہ لوگوں کے آرام میں خلل واقع نہ ہو، رات دس بجے کے بعد ٹیلی ویژن نشریات کو بھی بند کیا جاسکتا ہے، احادیث مبارکہ میں ہے:
’’صخر غامدی بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: اے اللہ! میری امت کے لیے اس کی صبح میں برکت عطا فرما اور آپؐ جب کوئی لشکر روانہ کرتے تو دن کے شروع میں روانہ فرماتے، صخر تاجر پیشہ تھے اور وہ اپنی تجارتی قافلے کو صبح کے وقت روانہ کرتے تھے (تو اس کی برکت سے) اللہ تعالیٰ نے اس کو کثرتِ مال سے نوازا‘‘، (سنن ابودائود) نبیؐ نے فرمایا: صبح کے وقت (سونا) رزق (کی کشادگی) کو روک دیتا ہے‘‘۔ (مسند احمد)
رسول اللہؐ نے کام کے آغاز کے لیے صبح کو ترجیح دی جو دن کے عروج کی علامت ہے اور ہم لوگ دن کے آغاز میں سوئے رہتے ہیں اور زوال کے وقت کام شروع کرتے ہیں جو زوال کی علامت ہے۔ اسی طرح ہماری دینی اور معاشرتی تقریبات بھی بالعموم راتوں کو منعقد ہوتی ہیں، حالانکہ ہم دن میں بھی یہ کام کرسکتے ہیں اور اس سے توانائی کی کافی بچت ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں اصلاح کے کاموں میں رکاوٹ پیدا کرنا لوگوں کو بہت آسان معلوم ہوتا ہے، سب یک جان اور یک آواز ہوجاتے ہیں، حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی ملّی، ملکی اور قومی مشکلات کا ادراک کریں اور ان مشکلات کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔