!کراچی کے مقامی اور غیر مقامیوں کے مسائل

740

لگ بھگ تین کروڑ کی آبادی والے شہر کراچی کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ غیر مقامی ہونے کے باوجود بحیثیت صوبائی حکومت کے سربراہ شہری امور پر توجہ دیا کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے شہر کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹریٹ کریمنلز اور دہشت گرد تنظیمیں دو بڑے خطرات ہیں۔ اسٹریٹ کریمنلز نے کراچی کے شہریوں میں خوف و ہراس اور بے چینی پیدا کر رکھی ہے ان کے خلاف موثر کارروائی کی ضرورت ہے۔ مراد علی شاہ حکومت کے انتظامی سربراہ ہونے کے ساتھ صوبے کے وزیر داخلہ کا قلمدان بھی اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اس طرح رینجرز اور پولیس پر ان ہی کا کنٹرول ہے۔ اس طرح وہ ہی امن و امان سمیت ہر طرح کے جرائم کو کنٹرول کرنے کی مجاز اتھارٹی بھی ہیں، اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ کی براہ راست منظوری کے بغیر محکمہ پولیس میں کسی ڈی ایس پی اور ایس پی کا بھی تبادلہ و تعیناتی نہیں کی جاسکتی، اس طرح آئی جی سندھ اور کراچی پولیس چیف ان امور کی انجام دہی میں بے اختیار ہیں۔ وزیر اعلیٰ کا مذکورہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہنا تھا کہ غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ جاری بھی ہے جسے روکنے کے لیے وفاقی حکومت سے بات کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ کا یہ کہنا کہ صوبے اور شہر میں جرائم کی وارداتوں کی وجہ غیر ملکی تارکین وطن بھی ہیں، درست ہوگا لیکن ایک کڑوی حقیقت یہ بھی ہے کہ کراچی میں ہر طرح کے جرائم میں ملوث افراد کی اکثریت کا تعلق ملکی غیر مقامی لوگوں سے ہوتا ہے جو وارداتیں کرکے سڑک یا ریل کے راستے کراچی سے باآسانی فرار ہوجاتے یا اس شہر کے گنجان آباد علاقوں میں چھپ جاتے ہیں۔ چونکہ شہر میں جرائم کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے مامور پولیس اور رینجرز میں غیر مقامی افراد کا غلبہ ہے اس لیے فطری لحاظ سے یہ شبہ کیا جاسکتا ہے کہ اسٹریٹ کریمنلز کو پکڑا جانا اتنا آسان نہیں جتنا انہیں وارداتوں کے بعد تحفظ دینا آسان ہے۔
کراچی شہر شاید دنیا کا واحد بڑا شہر ہے جہاں پولیس اور انتظامیہ سے منسلک اکثریت کا تعلق غیر مقامی افراد یا کراچی سے باہر کے لوگوں سے ہے یا پھر دیگر شہروں سے آکر محض کاروبار یا ملازمت کرنے کی غرض سے کراچی آتے ہیں اور پھر ضرورت کے مطابق جب چاہے یہاں سے اپنے گاؤں، شہر لوٹ جاتے ہیں۔ غیر ملکی سمیت غیر مقامی افراد کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے کراچی جرائم کا گڑھ بھی بنتا جا رہا ہے جبکہ اسی وجہ سے کراچی کے انسانوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں ہو پاتا اور ملک کا کوئی بااختیار ادارہ یہ طے کرنے کے لیے قدم بھی نہیں اٹھاتا کہ شناختی کارڈ اور ڈومیسائل کے مطابق ’’کراچی کے مستقل شہری کتنے ہیں اور عارضی کتنے‘‘۔ کراچی میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کے دستاویزات کی جانچ کی تو یہ واضح ہوسکتا ہے کہ وہ کس شہر یا ڈویژن کا مستقل شہری ہے۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ حکومت نے جب بھی مردم شماری کرائی غیر مقامی یا عارضی بنیاد پر کراچی میں قیام کرنے والوں ہی سے کرائی جو شناختی کارڈ دیکھنے کے باوجود ان کا اندراج مستقل رہائشی پتے کی بنیاد پر نہیں کرتے۔ حالانکہ کراچی کے انفرا اسٹرکچر کو استعمال کرنے اور یہاں سے روزگار و تعلیم اور رہائش کی سہولت حاصل کرنے والوں کو یہیں کا شمار کیا جانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے سیٹیزن شپ کا سرٹیفکیٹ بھی ان عارضی بنیادوں پر رہائش اختیار کرنے والوں کو جاری کیا جاسکتا ہے۔ سٹیزن شپ کے حامل افراد سے ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر سٹیزن ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان تمام مقاصد کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ قانون سازی صرف وہ ہی رکن قومی و صوبائی اسمبلی کرسکتا جو اس ملک اور ملک کے شہروں کے امور سے مخلص ہو دلچسپی رکھتا ہو۔ جو مقامی اور غیر مقامی افراد کو ملک کے رائج آئین اور قوانین کے مطابق حقوق دلانا چاہتا ہو۔ آئیے میرے ان مذکورہ بالا جملوں پر غور کریں اور منی پاکستان سمیت پورے ملک کے لوگوں کو حقوق دلائیں۔