جمہوریت کا ڈھونگ

552

امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے درست کہا ہے کہ جس دن وطن عزیز میں آزادانہ ماحول میں صاف و شفاف انتخابات ہوئے جمہوریت آزاد ہو جائے گی، قیام پاکستان سے اب تک سیاسی ٹرائیکا جمہوریت کا ڈھونگ رچا کر اب تک برسر اقتدار رہا ہے، مگر ان کا انداز حکمرانی آمریت سے بھی بدتر ہے، پاکستان کے بچے بچے کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ اقتدار کی ٹرائیکا اور سیاسی ٹرائیکا نے عوام کو بدحال اور ملک کو غیر مستحکم کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا، ان کی سیاسی سوچ اور انداز حکمرانی ریگزار سے بھی زیادہ بنجر ہے، دنیا کے کسی بھی ملک میں ان سے زیادہ نااہل اور ناکام حکمران نہیں ملیں گے۔ انہوں نے اپنی معاشی حالت کو سنوارنے کی بھاگ دوڑ میں ملک و قوم کی معاشی حالت بھکاریوں سے بدترکر دی ہے۔ سازش کا نام سیاست رکھ دیا گیا ہے، مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے مگر اب عوام کا سیاسی شعور بے دار ہونے لگا ہے انہیں اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ ووٹ نوٹ کی طرح قیمتی ہوتا ہے کھوٹے لوگوں کو ووٹ دینے کا انجام یہی ہوتا ہے کہ ان کی معاشی حالت بھی کھوٹی ہو جاتی ہے، جو چوروں، ڈائوں، لٹیروں کو ووٹ دے کر ملکی و قومی خزانے پر ڈاکا زنی کی اجازت دینے کے مترادف ہے مگر اب ایسا نہیں ہوگا حالات بدل رہے ہیں سوچ بدل رہی ہے، قوم کو احساس ہو چکا ہے کہ جماعت اسلامی واحد آپشن ہے جماعت اسلامی کو موقع فراہم کرنے کا مقصد نوجوانوں کو آگے لانا ہے کیونکہ جب تک نوجوان طبقہ ایوان اقتدار میں نہیں آئے گا چوروں، ڈاکوئوں سے نجات نہیں مل سکتی، جماعت اسلامی کا مقصد قرآن و سنت کا بول بالا ہے شرعی نظام ہی ہمارے نظام زندگی کو سدھار سکتا ہے۔
یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ پون صدی تک مختلف نظام حکمرانی کے تجربات کے بعد بھی اقتدار کی تکون کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ وہ پاکستان سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے ہیں، اس حقیقت سے ساری دنیا واقف ہے کہ پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور تحریک پاکستان کا مقصد شریعت کا نفاذ تھا، تحریک کے دوران یہ بھی باور کرایا گیا تھا کہ پاکستان کا مطلب ہے لا اِلٰہ اِلا اللہ، مگر جب پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر عالمی جغرافیائی نقشے پر ابھرا تو اس کے قیام اور مقصد کو بھلا دیا گیا، بدنصیبی یہ ہے کہ حکمرانوں نے اسلام کو بھی بھلا دیا، پھر اسلام آباد ہی ان کا دین و ایمان بن گیا۔
کہتے ہیں ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے اور جب قدرت کسی بندے کے عمل پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتی ہے تو پاکستانیت ظہور پزیر ہوتی ہے، پاکستان سے بے وفائی کے مرتکب سیاستدان ہی نہیں عوام بھی ہیں، کیونکہ انہوں نے دیدہ دانستہ ایسے امیدواروں کو کامیابی سے ہمکنار کیا جو اسلام سے کنارہ کشی کے مرتکب ہوئے تھے، اس تناظر میں فلاح و بہبود کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے، قدرت کو ان کا یہ عمل پسند نہیں آیا، اور اس نے رد عمل کے طور پر پاکستان سے بے وفائی کرنے والوں کو پاکستانیت ہی سے محروم کر دیا، دنیا میں دو ہی ملک پاکستان اور اسرائیل مذہب کے نام پر معرض وجود میں آئے ہیں بدنصیبی یہ ہے کہ اہل پاکستان نے مذہب سے بے وفائی کا وتیرہ اختیار کیا اور اسرائیل نے مذہب کو ڈھال بنالیا، اسرائیلی دنیاکے کسی بھی ملک میں قیام پزیر ہو وہ اسرائیل کا بھی شہری ہوتا ہے، مگر پاکستان جو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے وجود میں آیا تھا آج برصغیر کے مسلمانوں کے لیے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
لاہور کے ایک پھل فروش کے خلاف پاکستان میں غیر قانونی طور پر قیام کی شکایت پر پولیس ایکشن میں آئی، عدلیہ بھی انگڑائی لے کر بیدار ہو گئی، شکایت کی وجہ یہ تھی کہ پھل فروش پاکستان آیا اور ریڑھی لگاتے لگاتے دکان کا مالک بن گیا اس کی بڑی بیٹی ایم اے کی طالبہ تھی کسی رشتہ دار نے بیٹے کے لیے رشتہ مانگا تو اس نے کہا کہ میری بیٹی ایم اے کررہی ہے اور تمہارا بیٹا چٹا ان پڑھ ہے یہ رشتہ کیسے ہو سکتا ہے لڑکی کا باپ ہندوستان سے آیا تھا اور پھر یہیں کا ہو رہا، پھلوں کی ریڑھی لگائی اور رفتہ رفتہ ریڑھی سے دکان پر آگیا اور پھر دکان کا مالک بھی بن گیا، رشتہ اس کے کسی عزیز نے مانگا تھا مگر انکار ہونے پر اس نے اس کے خلاف درخواست دے دی نتیجتاً پولیس نے گرفتار کر کے عدلیہ کے سپرد کر دیا اور عدلیہ نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پزیر ہونے کے جرم میں 8سال قید بامشقت اور پھر ہندوستان واپس بھیجنے کی سزا سنادی سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص لڑکپن میں ہندوستان سے آیا تھا اس نے یہیں پر شادی کی اور کئی بچوں کا باپ بنا تو کیا اس پس منظر میں بھارتی حکومت اسے بھارتی شہری کا درجہ دے گی؟ نہیں ہرگز نہیں، تو پھر اس کا اور اس کے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ مگر صاحب اختیار طبقہ یہ سوچنے کی زحمت گوارہ ہی نہیں کرتا بھارت کی ایک عدالت کے فیصلے کے مطابق جو پاکستانی ہندو قانونی طور پر ہندوستان جاتا ہے، وہ شہریت اختیار نہ بھی کرے اور وہیں رہائش اختیار کر لے اور جب یہ حقیقت کسی عدالت کے علم میں آتی ہے تو اسے بھارتی شہریت دے دی جاتی ہے کیونکہ انہیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ پاکستان مسلمانوں اور ہندوستان ہندوئوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ خدا جانے پاکستان کا مقتدر طبقہ کب اس حقیقت کا ادراک کرے گا۔