دہشت گردی، دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو

1074

امریکا نے اپنے سفارت کاروں کے لیے ایک تھریٹ الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ میریٹ ہوٹل میں نہ جائیں کیونکہ وہاں دہشت گردوں کا حملہ ہوسکتا ہے۔ اس ہدایت سے پہلے ہی اسلام آباد کے خارجی اور داخلی راستوں پر نگرانی کا کام تیز کردیا تھا۔ امریکا کا اپنے شہریوں اور سفارت کاروں کے لیے انتباہ پاکستان میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا اشارہ ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پہنچ رہا ہے جب اسلام آباد سمیت ملک کا کوئی بھی علاقہ دہشت گردوں کی پہنچ سے دور نہیں تھا۔ ملک میں چند ماہ کے دوران دہشت گردی کے عفریت نے ایک بار پھر سر اُٹھا لیا ہے۔ خیبر پختون خوا سے ہوتا ہوا یہ عفریت اسلام آباد میں پہنچ چکا ہے۔ بلوچستان میں پہلے دہشت گردی کی رفتار دھیمی ہوئی تھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ گزشتہ چند دنوں میں ملک میں دہشت گردی کے پہ درپہ واقعات رونما ہونے لگے ہیں۔ بلوچستان کے علاقے کوہلو میں ایک آپریشن کے دوران بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک فوجی گاڑی تباہ ہونے سے چھے جوانوں کی شہادت ہوئی ہے اس سے پہلے بنوں کینٹ میں ہونے والا واقعہ چشم کشا تھا جہاں جیل توڑ کر نکلنے والے دہشت گردوں نے ٹی ڈی سی کے دفتر پر قبضہ کرکے اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ دہشت گردوں نے یرغمالیوں کی وڈیوز بھی جاری کیں اور اپنے لیے افغانستان تک محفوظ راہداری کا مطالبہ بھی کیا۔ وہ انتہائی تحکمانہ انداز میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے افغانستان پہنچانے کا مطالبہ کرتے رہے۔ جس کے بعد سیکورٹی فورسز نے قبضہ چھڑانے اور یرغمالیوں کو بچانے کے لیے آپریشن کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک طویل آپریشن ثابت ہوا جس میں تینتیس دہشت گرد مارے گئے جبکہ سیکورٹی فورسز کا معمولی نقصان ہوا۔ اسلام آباد میں ایک خود کش حملے میں ایک پولیس اہلکار شہید ہوا۔
خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کی ایک لہر اُبھر رہی ہے۔ یہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کی واپسی ہے یا دہشت گردی کہیں گئی ہی نہیں تھی یہ بحث کا موضوع ہو سکتا ہے مگر اس میں دورائے نہیں کہ دہشت گردی دوبارہ پاکستان میں اپنے پر پھیلا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انٹونیو گوترس نے کہا ہے کہ طالبان اپنی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کو روکیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے کہا ہے کہ وہ بنوں کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے میں مدد دینے کو تیار ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پہنچتا جا رہا ہے جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اگلا مورچہ اور اتحادی تھا اور اس کے ساتھ ہی وہ خودبدترین دہشت گردی کے باعث مضمحل اور لہولہان تھا۔ امریکا پاکستان کو دہشت گردی سے بچانے کے نام پر سلامتی اور تحفظ کا پورا متوازی نظام پاکستان میں کھڑا کر چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکا کو پاکستان کے سیکورٹی اداروں پر اعتبار نہیں تھا وہ سمجھتا تھا کہ پاکستان اس کے ساتھ ڈبل گیم کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ طالبان کی حمایت کر رہا ہے تو دوسری طرف امریکا کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور تھا۔ ڈبل گیم کے اس الزام کے تحت امریکا پاکستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کررہا تھا۔ حالات وواقعات نے ثابت کیا تھا کہ امریکا کا یہ نیٹ ورک کو بلیک واٹر اور کچھ این جی اوز کے نام سے کام کررہا تھا پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں براہ راست ملوث تھا یا دہشت گردی کی فنڈنگ کر رہا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ اس نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کا باعث بنا۔
ریمنڈ ڈیوس نامی امریکی جاسوس نے دو پاکستانی شہریوں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا اور پھر چند دن تھانے میں رہ کر رہائی کا پروانہ لے کر اُڑن چھو ہو گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی نے آگے چل کر سلالہ کا رنگ اختیار کیا تھا جہاں پاکستان کی ایک سرحدی چوکی پر امریکی جنگی جہازوں نے حملہ کرکے دو درجن فوجیوں کو شہید کیا تھا۔ پاکستان نے اس ردعمل میں ناٹو سپلائی معطل کر دی تھی۔ ان واقعات کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوتے چلے گئے تھے۔ افغانستان سے انخلا کے بعد امریکا کو دوبارہ اپنے موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی ضرورت پیش آئی اور امریکا نے پاکستان سے فضائی اسپیس اور اڈوں کا مطالبہ پرائیویٹ انداز میں دہرانا شروع کیا۔ افغانستان میں جب تک اشرف غنی اور کرزئی کی حکومتیں رہیں اور خود امریکی بگرام ائر بیس میں موجود رہے انہیں پاکستان کی ضرورت نہیں تھی مگر جب وہ اس کمیں گاہ سے محروم ہوگئے تو انہیں چین اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر نظر رکھنے کے لیے ایک جائے پناہ کی ضرورت محسوس ہوئی اور اسی ضرورت کے تحت امریکیوں نے پاکستان سے دوبارہ رسم وراہ پیدا کرنا شروع کی۔ جب سے یہ رسم وراہ بڑھی ہے پاکستان دوبارہ دہشت گردی کی دلدل میں دھنسنے لگا ہے۔ جس امن کو قائم کرنے کے لیے پاکستان نے کئی فوجی آپریشن کیے اور ہزاروں جانیں قربان کیں وہ امن دوبارہ دائو پر لگتا نظر آرہا ہے۔