تخت کے چکر میں ریاست کا دھڑم تختہ نہ ہو جائے

552

اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ بات بہت سادہ سی ہے۔ ہر وہ کام جس کے کرنے کا کوئی ارادہ ہی نہ ہو اُسے یا تو عوام کے کاندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے یا پھر عدالتوں میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایوب خان کے زمانے میں بے شمار تعمیری کام ہوئے جن میں سرِ فہرست نہری نظام کو نہایت مضبوط بنانے کے لیے ایک دو نہیں نصف درجن سے بھی زائد بڑے بڑے ڈیم بنائے گئے۔ کیا جب نہری نظام کو نہایت فعال کیا جا رہا تھا اور ڈیم پر ڈیم تعمیر کیے جا رہے تھے تو یہ سب کام عوام، صوبوں، ملکوں، چودھریوں، وڈیروں، سرداروں اور نوابوں سے پوچھ کر کیے گئے تھے؟۔ پھر ہوا یہ کہ معاملہ کالاباغ ڈیم بنانے کا آ گیا۔ اگر اس ڈیم کو بھی بنا لینے کا ارادہ پورے اخلاص کے ساتھ ہوتا تو اس کی تعمیر کے معاملے میں پاکستان کے تمام خود ساختہ ٹھیکیداروں اور صوبوں کی مشترکہ رائے لینا کیوں ضروری سمجھا گیا؟۔ بات سیدھی اور سادی سی ہے کہ جب کسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہی مقصود نہیں ہوا کرتا تو اس کو وڈیروں، ملکوں، چودھریوں، سرداروں، نوابوں اور صوبوں کی اتفاقِ رائے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قوم اور ہجوم میں فرق زمین و آسمان کے برابر ہوا کرتا ہے۔
پنجاب کی یا کے پی کے کی اسمبلیوں کو حقیقتاً توڑنا ہوتا تو وہ قومی اسمبلیوں کے استعفوں کے ساتھ ہی ٹوٹ چکی ہوتیں یا پی ٹی آئی کے اقتدار سے نکالے جانے کے ساتھ ہی دونوں صوبوں میں دھماکے ہو چکے ہوتے۔ اگر پھر بھی سوچ بچار کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی تو 17 دسمبر 2022 کو جب ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اس بات کا اعلان کیا جا رہا تھا کہ ہم 23 دسمبر 2022 کو دونوں اسمبلیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے تو آخر اسی پریس کانفرنس میں 23 دسمبر تک کا وقت دینے کے بجائے، 17 دسمبر ہی کو توڑ دینے کا اعلان کرنے میں کیا حرج تھا۔ جب آپ دو اسمبلیوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا ارادہ کر رہے تھے تو کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے بھی آ سکتا ہے۔ بات اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ 17 دسمبر کو 23 تاریخ دینے کا مطلب ہی یہی تھا کہ دل میں کچھ نہ کچھ کھوٹ ضرور ہے۔ مانا کہ پنجاب اسمبلی پوری کی پوری پی ٹی آئی کی نہیں ہے بلکہ وہ مسلم لیگ ق کے 10 ارکانِ اسمبلی کے قابو میں آئی ہوئی ہے اور جس پی ٹی آئی کے سر براہ کا کہنا یہ تھا کہ وہ کسی سے بلیک میل نہیں ہوگا، وہ پنجاب اسمبلی کے 177 ارکان کو بھی بار گاہِ ’’قافیا‘‘ میں سجدے پر سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر بیٹھا ہے۔ اب عالم یہ ہے پی ٹی آئی کے چیئر مین سمیت پنجاب اسمبلی کے 177 ارکان کے دروازے کے باہر ہوا کا جھونکا بھی آہٹ کر تا ہے تو وہ آہٹ بھی ان کو عدم اعتماد کے ’’بوٹوں‘‘ کی دھمک جیسی لگتی ہے۔
بات یہ ہے کہ پنجاب کا معاملہ تو بہر حال پنجاب اور اہل پنجاب کے حلق میں ’’ق‘‘ کی طرح پھنس کر رہ گیا ہے کیونکہ برس ہا برس کی ریاضت کے باوجود بھی حلق سے ق نکل کر ہی نہیں دیتا اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ’’قلب‘‘ کو ’’کلب‘‘ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ قلب اور کلب کا چکر ہی تو ہے جو سوشل میڈیا پر اہل ِ دل کے کم اور جن کی وفاداریوں کے چرچے عالمگیریت رکھتے ہیں، ان کا بے ہنگم شور و غل زیادہ سنائی دیتا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ اہل ِ پنجاب اسمبلی کے حلق میں ق بہت بری طرح پھنسا ہوا ہے اور اب ان کے مستقبل کا سوال ق کے نکل جانے یا نہ نکل جانے ہی سے جڑ کر رہ گیا ہے لیکن کے پی کے کے حلق میں تو ایسی کوئی چیز نہیں پھنسی ہوئی جو قلب کو کلب بنا کر رکھ دے۔ وہ تو خالص پی ٹی آئی ہی کی وراثت ہے تو اسے توڑ دینے میں کون سی رکاوٹ حائل ہے؟۔
کہا جا رہا ہے کہ جب تک پنجاب اسمبلی کے حلق سے ق نکل جانے یا پھنسے رہنے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک کے پی کے کی اسمبلی بھی نہیں توڑی جائے گی گویا نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے کی۔ شاید اسی کو ’’اونٹ کے گلے میں بلی‘‘ کہا جاتا ہے کہ بے شک اونٹ کی قیمت ایک درہم ہی سہی لیکن اس کے گلے میں لٹکی ہوئی بلی 9 درہم کی ہے اور جو بھی اونٹ خریدنا چاہے اس پر لازم ہے کہ وہ اونٹ اور بلی کو ایک ساتھ ہی خریدے۔ بات وہیں پر ہی آکر ختم ہوتی ہے کہ جو کام اخلاص کے ساتھ کرنا ہوتا ہے اس کے لیے مشورے طلب بے شک کیے جاتے ہیں لیکن اس کام کو بہر صورت کر دیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈیم بنانے تھے تو بنا ڈالے لیکن کالاباغ ڈیم کیونکہ بنانا ہی نہیں تھا اس لیے اسے عوام کی رائے پر چھوڑ دیا گیا۔
اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پاکستان کے لیے بہت ہی تباہ کن ہے۔ مان لیتے ہیں کہ ماضی میں ہر ادارے سے بہت بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہوتی رہیں ہے۔ طاقت کے نشے میں چور اداروں، ملک بھر میں ملکوں، چودھریوں، خانوں، سرداروں، نوابوں اور سرمایہ داروں سے لیکر تمام مذہبی اور سیاسی سربراہوں کا اس میں حسب ِ حیثیت و طاقت بڑا بھیانک کردار رہا ہے لیکن فی الوقت (اگر ادارے واقعی کسی کھیل میں مصروف نہیں تو) جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سب کا سب سیاسی رہنماؤں کی ذمے داری بن چکا ہے۔ اگر انہوں نے پاکستان کے اصل مسائل، جس میں سیاسی استحکام اور بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال شامل ہے، پر توجہ نہیں دی تو آنے والے ماہ و سال بہت بھیانک شکل اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسے موقع پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ سب سیاسی گرگے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے کے بجائے پاکستان کی نازک صورت حال کی جانب توجہ دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ تخت کا بخت جیتنے کے چکر میں (خدا نخواستہ) ریاست ہی کا دھڑم تختہ ہو جائے۔