سیاست کے اُبلتے ہوئے گٹر

532

قائد نے یہ پاکستان اس لیے نہیں بنایا تھا کہ یہاں جمہوریت کے نام پر باری لگتی رہے، یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا، لوگ اسلام کی سربلندی کے لیے کٹ مرے تھے، ایک خطہ ٔ زمین اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں اسلام کے زرین اصولوں پر اسلامی ریاست قائم ہوگی۔ مسلمانوں نے اسلام کے نفاذ کے لیے قربانیاں دی تھیں۔ لیکن ہم یہاں کلچر ڈے منارہے ہیں، صوبائی ثقافت کے گل بوٹے ٹانک رہے ہیں، ملک کے ایک حصے کو کاٹ کر پھینک دیا، لیکن اب بھی زراعت کے محکمے کے ذریعے جھاڑ جھنکاڑ کی شجر کاری کر رہے ہیں۔ اور یہ بھان متی کا کنبہ اقتدار سے چمٹ کر اپنے حلوے مانڈے میں مصرف ہے۔ ان حکمرانوں کو یہ احساس ہی نہیں کہ آٹا ایک سو تیس روپے کلو ہوگیا ہے، پیاز 200 روپے ہے، اور روٹی 20 روپے کی ہوگئی ہے، یہ سارے حکمران لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ملک کی معیشت تباہ ہورہی ہے۔ لیکن ان کی دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔ وفاقی حکومت کی کابینہ میں توسیع پر توسیع ہورہی ہے، کابینہ کے ارکان کی تعداد 76 ہوگئی ہے جس میں 31 معاونین خصوصی، 34 وفاقی وزراء، 7 وزیر مملکت اور 4 مشیر شامل ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ ہے۔ ان کے غیرملکی دورے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ملک میں زرمبادلہ کی کمی ہے، ڈالر مارکیٹ سے غائب ہے، لیکن یہ ٹولہ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے۔ جی بھر کر اس قوم کو لوٹنے میں مصروف ہے۔ لیکن ہم پھر ان ہی کو منتخب کرتے ہیں۔ انتخاب سے اس طرح بھاگ رہے ہیں جیسے ہیروئن کا نشہ کرنے والا پانی سے بھاگتا ہے۔
امریکا کا دم بھرنے والے ذرا وہاں کی جمہوری روایات ہی کا پاس کرلیں، وہاں جو بھی صدر بنتا ہے، عوام کا مفاد سب سے پہلے دیکھتا ہے، اقتدار سے باہر آنے کے بعد بھی وہ عوام کی خدمت کرتے ہیں، صدر بل کلنٹن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’’میری خواہش تھی کہ میں وائٹ ہاؤس سے نکلنے کے بعد بھی لوگوں کی خدمت کروں۔ انہیں ایسے موقعے فراہم کروں جن کے ذریعے وہ خوشیوں تک پہنچ سکیں۔ میں نے یہ سب کچھ اس لیے ضروری سمجھا کہ میرے ہم وطنوں نے مجھے زندگی میں ایک تاریخی مقام تک پہنچنے میں مدد دی تھی۔ ایک ایسا مقام جو ہر شخص کو نہیں ملتا۔ امریکا کا صدر اور وہ بھی دو بار‘‘۔ بل کلنٹن نے یہ باتیں اپنی کتاب ’’دینا‘‘ یا Giving۔ میں لکھی ہیں۔ کلنٹن کا کہنا ہے کہ ’’سیاست ایک ایساکام ہے جس کا انحصار عام طور پر صرف لینے پر ہے۔ سیاست دان لوگوں سے مدد لیتے ہیں، عطیات لیتے ہیں یا پھر ووٹ لیتے ہیں اور یہ عمل ایک بار نہیں بار بار دہرایا جا تا ہے۔ آپ خواہ کسی بھی منصب پر پہنچ جائیں آپ لوگوں کو اتنا واپس نہیں کرتے جس قدر آپ ان سے وصول کر چکے ہوتے ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ مجھے اتنا سارا حساب بے باق کرنا ہے۔ اس محبت کا قرض اُتارنا ہے جو امریکی عوام نے مجھ سے کی۔ میں اپنے اہل خانہ کے علاوہ بہت سے لوگوں کے لیے بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں یہ سب کچھ کروں تاکہ میرے ہم وطن اور دنیا بھر کے لوگ ایک خوشگوار زندگی سے ہمکنار ہوں‘‘۔ یہ ساری باتیں کلنٹن نے اس کتاب کے تعارف میں کہی ہیں۔
دوسری جانب یہ غریب ملک ہے، جو سیلاب کی تباہ کاری سے لڑ رہا ہے، سندھ کا سب سے زیادہ برا حال ہے، بہت سی زمینوں پر پانی اب تک کھڑا ہے، فصلیں ڈوبی ہوئی ہیں، راستے تباہ حال ہیں۔ عوام بے حال ہیں۔ سیلاب نے پورے ملک کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بے گھری، اموات اور بھوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ذرا ان تباہ کن اثرات کا ایک جائزہ تو لیں۔ 1500 سے زیادہ اموات، تقریباً 13 ہزار زخمی، 10لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا، تقریباً 8لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے، ایک ملین سے زائد مویشی ضائع ہو گئے، 9ملین ایکڑ سے زائد فصلیں متاثر ہوئیں، اس آفت زدہ قدرتی واقعے کی جانی اور مالی نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والے صرف امداد کی آس میں رہے۔ سردیاں آگئیں، خیمے بھی جو امداد میں آئے وہ اب تک متاثرین کو نہیں پہنچ سکے۔ ان کی خوراک، روزگار، مکان کی چھت کی فراہمی کو کسی کو خیال نہیں، لیکن اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لیے ارکان کی خرید و فروخت جاری ہے، عدالتیں بھی اس کھیل کا حصہ بن گئی ہیں، عام آدم انصاف کے لیے ترس رہا ہے، اس کا مقدمہ کوئی سننے والا نہیں ہے۔ لیکن حکمرانوں کے لیے رات دن کسی بھی وقت عدالتیں کھلی ہوئی ہیں، ان کے مقدمات سننے جار ہے ہیں، ایک فیصلہ حمایت میں ہوتا ہے، اور دوسرے سے اس کی نفی ہوجاتی ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ پاکستانی عوام کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟
اسمبلیاں توڑنا، ارکان اسمبلی کو خریدنا بس یہی ایک کام رہ گیا ہے، یا دوسرا کام وہی ویڈیوز کا ہے، سیاست کے گٹر اُبل رہے ہیں، ہر طرف تعفن پھیلا ہوا ہے، گندگی کا ڈھیر ہے، اور اس گندگی کر پھیلانے کے لیے رات دن سوشل میڈیا پر کام جاری ہے۔ صحافت کے نام پر جو کچھ رات دن پھیلایا جارہا ہے، وہ کسی طور پر صحافت نہیں کہی جاسکتی، اور نہ ہی ان لوگوں کو صحافی کہا جاسکتا ہے، یہ تاجر، لٹیرے، گندے کام کو پھیلانے والے، اپنی قیمت وصول کررہے ہیں، کوئی بورڈ کا چیئرمین، اور کوئی سفیر و وزیر یا ٹھیکے داری میں مصروف ہے۔ پاکستان ہرگز اس مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، یہ تو مسجد کی جگہ تھی، جیسے میخانہ بنادیا گیا ہے۔