بھارت، نقاب کئی بار اترا ہے

669

سانحہ ڈھاکا ہوا تو، شملہ معاہدے کے وقت تینوں ملکوں، بھارت، بنگلا دیش اور پاکستان میں ایک معاہدہ ہوا، کہ جو ہوگیا سو ہوگیا، اب کوئی ملک اپنے اندر کسی کے ساتھ کوئی انتقام نہیں لے گا، مگر بنگلا دیش نے یہ معاہدہ توڑا، نیا قانون بنایا اور بوڑھے، بزرگ شہریوں کو قید کیا، اور پھانسی پر لٹکایا، ملا قادر اور ان جیسے شہداء اس وقت جنت سے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ پانچ اگست کو بھارت نے برصغیر میں ایک اور وار کیا، مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کردی اور اب وہاں قانون سازی ہورہی ہے، اور جماعت اسلامی کی املاک قبضے میں لی جارہی ہیں، آج تو صرف یہ ہو رہا ہے آنے والے کل میں کیا ہوگا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، کشمیر کی کہانی ابھی جاری ہے، تاہم خاموشی ایسی کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں، خاموش، گونگی بہری بنی ہوئی ہیں، پانچ اگست 2019 سے آج دسمبر2022 تک وہاں کیا ہورہا ہے اور کیا ہوتا آیا ہے اس بارے میں انسانی حقوق کی تنظیمیں نہ جانے کیوں چپ ہیں، ایک ذرائع ابلاغ کا شعبہ ہی لے لیجیے، بھارت، خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں 2022 صحافیوں کے لیے بدترین سال ثابت ہوا۔ کل 363 صحافیوں کو جیل ہوئی جن میں سے بیش تر اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی گرفتاریوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں بیس فی صد کا اضافہ ہوا ہے یہ رپورٹ صحافیوں کی عالمی تنظیم ’’کمیٹی ٹو پروٹکٹ جرنلسٹس‘‘ نے پیش کی ہے۔ اس نے عالمی سطح پر اس کا جائزہ لیا ہے کہ یکم جنوری 2022 سے یکم دسمبر 2022 تک صحافیوں کی کیا صور تحال رہی اور کتنے صحافیوں کو گرفتار کیا گیا دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح بھارت بھی صحافیوں کے لیے یہ سال اچھا نہیں گزرا۔
صحافیوں کے ساتھ حکومت اور پولیس کے برتائو کے سلسلے میں بھارت پر بھی شدید تنقید ہوتی رہی ہے خاص طور پر جموں و کشمیر میں صحافیوں پر انتہائی سخت قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے نفاذ کے سلسلے میں حکومت تنقیدوں کی زد میں رہی ہے بھارت میں اس وقت سات صحافی سلاخوں کے پیچھے ہیں جن میں پانچ مسلمان ہیں اور ان میں سے چار کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں کشمیر کے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیے جانے والوں کو دو سال تک بغیر مقدمہ چلائے جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جن چار کشمیری صحافیوں کو جیل میں ڈالا گیا ہے ان میں آصف سلطان، فہد شاہ، سجاد گل اور منان ڈار، صدیق کپن، گوتم نولکھا اور روپیش کمار بھی جیل میں بند ہیں۔ صدیق کپن کیرالہ کے صحافی ہیں۔ انہیں پانچ اگست 2020 کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کی اجتماعی عصمت دری اور قتل کے واقعہ کی کوریج کے لیے جا رہے تھے۔ وہ ابھی دہلی سے متھرا پہنچے ہی تھے کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا ان پر پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے تعلق اور دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کا الزام ہے۔ بعد میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر حکومت نے پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی، روپیش کمار ایک آزاد صحافی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ مائو نوازوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرتے تھے۔ ان کو جولائی میں جھار کھنڈ پولیس نے گرفتار کیا تھا وہ سات برسوں سے آدیواسیوں کے خلاف ہونے والے مبینہ سرکاری مظالم کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔
پیگاسس جاسوسی کے معاملے میں جن صحافیوں کے فون نمبر لیک ہوئے تھے ان میں ان کا بھی فون نمبر تھا گوتم نولکھا ایک صحافی ہیں ان سولہ افراد میں شامل ہیں جن پر 2018 میں پونے کے نزدیک بھیما کورے گائوں میں تشدد برپا کرنے کا الزام ہے۔ وہ 2020 سے جیل میں ہیں انسانی اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ان کی بینائی کمزور ہے۔ جیل میں ان کا چشمہ گم ہو گیا تھا۔ ان کی اہلیہ نے ان کو چشمہ بھیجا لیکن انہیں چشمہ لینے کی اجازت نہیں ملی جس پر انہیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ عدالت عظمیٰ نے انہیں جیل سے نکال کر گھر میں نظربند کر دیا ہے سی بی آئی چاہتی ہے کہ دوبارہ جیل میں ڈالا جائے ان پر بھی صدیق کپن کے مانند یو اے پی اے لگا دیا گیا ہے۔ منان ڈار پر بھی یو اے پی اے لگایا گیا ہے بھارت میں اب حکومت پر تنقید کرنا بہت دشوار ہوتا جا رہا ہے اگر کوئی مسلمان صحافی حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتا ہے تو اسے زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ ایسے متعدد صحافی ہیں جنہیں ان کی حق گوئی کی وجہ سے ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے تازہ ترین واقعہ رویش کمار کا ہے، ایسے بیش تر صحافی اب سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور انہوں نے اپنے یو ٹیوب چینل بنا لیے ہیں جن پر وہ اپنی بات کہتے اور سیاسی و سماجی واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہیں مسلم صحافی کو حکومت پر تنقید کا کوئی حق نہیں ایسا کرنے پر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے حکومت نواز صحافیوں کو اپنے یو ٹیوب چینل سے اپنی بات کہنے کی آزادی حاصل ہے عملی طور پر حقیقی صحافیوں کے لیے کام کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔