خوش آئند اقدام

600

امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے درست کہا ہے کہ سیاست جماعتیں جب بھی تصادم کا راستہ اختیار کرتی ہیں جمہوریت لہو لہان ہو جاتی ہے مگر اس عبرتناک انجام سے کسی نے عبرت نہیں پکڑی، حالات و واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت پگڈنڈی سے اتر کر تصادم کی راہ پر گامزن ہو گئی ہے اگر سیاسی جماعتوں نے اپنی روش ترک نہ کی تو سبھی کو گھر جانا پڑے گا، آرمی چیف کی تعیناتی کا طریقہ کار موجود ہے، مگر سابق وزرائے اعظم نے اپنی پسند کے جنرل کو فوقیت دی ہے، پسند نا پسند کے اس کھیل نے کیا کیا گل کھلائے ہیں وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ان دنوں بھی فوجی قیادت کی تعیناتی کے معاملے میں دست وگریباں ہیں برسر اقتدار جماعت اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لیے اداروں کو کمزور کرتی رہتی ہے، پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی جمہوریت نہیں اقتدار چاہتی ہیں، کوئی بھی حکومت بلدیاتی الیکشن نہیں کرانا چاہتی، پی ٹی آئی بھی بلدیاتی الیکشن سے گریزاں رہی ہے، جہاں بلدیاتی الیکشن ہوئے ہیں وہاں اختیارات نہیں دیے گئے، اس کی واضح مثال بلوچستان ہے، گوادر کے رہائشی لگ بھگ ڈیڑھ ماہ سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں مگر حکومت ان کے مطالبات پر کان دھرنے کو تیار ہی نہیں حتیٰ کہ کفن پوش احتجاج پر بھی چشم پوشی کا رویہ اختیار کیا گیا، قومی بدنصیبی یہی ہے کہ حکمران کوئی بھی ہو اس کا نصب العین اور سیاسی منشور ایک ہی ہوتا ہے کوئی بھی حکومت اپنے عہد و پیماں کی پاسداری نہیں کرتی، ہر حکمران نے عوام کو دھوکا دیا ہے، محترم سراج الحق کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے مگر وطن عزیز کے عزیزانِ مصر پر کوئی اثر نہیں ہوا حکومت پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ کرتی رہتی ہے جو عوام کی قوت خرید سے باہر ہوتا جارہا ہے اگر حکومت جونکوں کی طرح عوام کا خون چوستی رہی تو پھر سنسان ویران گلیوں میں مرزا یار ہی پھرے گا، نااہل حکمرانوں نے ایسی لوٹ مار مچائی ہے کہ آہ و بکا کے سوا کوئی اور آواز سنائی ہی نہیں دیتی نالائق حکمران اور عشرت گہہ خسرو کے مکینوں نے اپنی عیاشی کے لیے ملک کو اتنا مقروض کر دیا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اڑھائی سے تین لاکھ کا مقروض ہوتا ہے، کیونکہ حکمرانوں کی پالیسی یہی ہے کہ قرض لو، عیاشی کرو اور عوام کو قرض کے سونامی میں ڈبوتے رہو۔
لگ بھر اڑھائی لاکھ نوجوان ہر سال یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، مگر انہیں روزگار نہیں ملتا مختلف دفاتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں اور اتنے ہی بچے غربت کی وجہ سے محروم رہتے ہیں، جو سڑکوں پر دھکے کھاتے پھرتے ہیں، بیمار ہو جائیں تو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں، اسپتال عمارت کی حد تک تو موجود ہیں مگر ان میں ادویات نہیں، حکمرانوں کی نااہلی اور نالائقی کی انتہاء یہ ہے کہ
عوام کو پینے کے لیے صاف شفاف پانی بھی میسر نہیں اور حکمران منرل واٹر سے کلیاں کرتے ہیں حتیٰ کہ جوتے بھی صاف کرتے ہیں، اس پس منظر میں نئی نسل یہ سوچنے پر حق بجانب ہے کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں پانی ہے، روٹی ہے نہ روزگار ہے مگر حکمرانوں کی عیاشیاں کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں، بلدیاتی اداروں کو غیر فعال کر دیا گیا ہے جس کے باعث شہر کچرا گھر بن گئے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ ملک و قوم کے بارے میں کچھ سوچنے پر آمادہ ہی نہیں، عام انتخابات کے وقت سیاسی پارٹیاں عوام سے خوشحالی اور ملک استحکام کے وعدے تو بہت کرتی ہیں مگر ایوان اقتدار میں آکر سارے وعدے بھول جاتی ہیں، وطن عزیز کی عزیز عدلیہ جو از خود نوٹس لینے میں عالمگیر شہرت کی حامل ہے خاموش تماشائی بنی رہتی ہے حالانکہ اس کی ذمے داری ہے کہ جو پارٹی حکومت بنانے کے بعد اپنے وعدوں اور سیاسی ایجنڈے کی تکمیل سے غفلت کی مرتکب ہوتی ہے اس کے خلاف وعدہ خلافی کی کارروائی کرے جس دن عدلیہ نے اپنی ذمے داری نبھانے کا عہد کر لیا حکمران طبقہ بھی اپنے عہد و پیمان پر عملدرآمد کرنے لگاے گا، کیونکہ احتساب کا خوف غلطیوں سے اجتناب پر کاربند رکھتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق کا کہنا ہے کہ عوام ملکی املاک کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے مگر حکومت کی وعدہ خلافی انہیں مشتعل کردیتی ہے اور عوام انہیں اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے توڑ پھوڑ پر مجبور ہو جاتے ہیں، گوادر کو حق دو تحریک تیسرے فیز سے گزر رہی ہے، معاہدہ ہوا مگر حکومت نے اس پر عمل نہیں کیا اگر حکومت اسی طرح چشم پوشی کرتی رہی تو پر امن مظاہرین اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے پر تشدد مظاہرے کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، اگر مطالبات پورے نہ کیے گئے تو بلوچستان کے حقوق کی تحریک کو قومی سطح تک پھیلا دیا جائے گا، یہ کیسی تکلیف دہ بات ہے کہ بے شمار وسائل کے باوجود مزدور اور سرکاری ملازمین سبھی مالی طور پر پریشان ہیں اور اس پریشانی کی بڑی وجہ مہنگائی ہے مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ محترم سراج الحق کا کہنا ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں جہاں فوجی قائد کی تعیناتی کے لیے سیاسی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہوں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی پسند نا پسند فوجی قیادت کے لیے بے معنی ہے، اس کی نظر میں سیاسی پارٹیوں کا مفاد کوئی معنی نہیں رکھتا وہ اپنے ادارے کے مفادات کے بارے میں سوچتا ہے، امیر جماعت نے یاد دلایا ہے کہ انہوں نے کئی بار آرمی چیف کی تعیناتی کو سیاستدانوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنے کا مشورہ دیاہے اگر چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کی طرح آرمی چیف کے تقرر کا بھی قانون بنادیا جائے تو یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا، انہوں نے اس بات پر خدا کا شکر ادا کیا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی سنیارٹی کی بنیاد پر ہونا ایک خوش آئند بات ہے۔