کردارسازی بذریعہ تعلیم

725

انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس) پشاور کے زیر اہتمام پشاور یونیورسٹی کے پیوٹا ہال میں کردار سازی بذریعہ تعلیم کے موضوع پر ایک قومی سیمینارکا انعقاد کیا گیا جس کے تین سیشن منعقد ہوئے، سیمینار سے پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن محمد دائود خان، سیکرٹری محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم معتصم باللہ، آئی آر ایس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال خلیل، کیریکٹر فائونڈیشن کے چیف ایگزیکٹیو محمود احمد، اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے سابق ڈین سائنسز پروفیسر ڈاکٹر سید ظاہر شاہ، پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین لنگڑیال مرکزی صدر تنظیم اساتذہ پاکستان، سیکنڈری بورڈ پشاور کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمن قریشی، ہوم اکنامکس کالج پشاور یونیورسٹی کی پرنسپل ڈاکٹر شہناز خٹک، ڈاکٹر اقبال خان ایڈیشنل ڈائریکٹر ایجوکیشن، معروف مذہبی اسکالراور تفہیم دین اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹرمولانا محمد اسماعیل، اسلامیہ کالج یونیورسٹی شعبہ انگریزی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبدلسلام خالص، ڈاکٹر محمد ناصر اور ڈاکٹر ہما جاوید نے بھی خطاب کیا۔
سیمینار سے خطاب میں اکثر مقررین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ اس وقت پورے ملک کا سب سے بڑا المیہ قوم کا بے سمت ہونا ہے، معاشرہ کے تمام طبقات اندھی تقلیدکے شکار ہیں، نوجوان بے راہروی سے دوچار ہیں، ملک کے آئینی ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام نظر آتے ہیں، تمام شعبوں میں کرپشن، رشوت ستانی اور اقربا پروری عروج پر ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ سیاسی افراتفری سے نظام زندگی معطل ہے، مہنگائی اور بدامنی نے عام لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے، حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان گالم گلوچ اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کی باقاعدہ ریس لگی ہوئی ہے، پارلیمنٹ بازیچہ اطفال نظر آتی ہے، تعلیمی اداروں میں میرٹ کلچر کا جنازہ نکالا جارہا ہے، نوجوان نسل کی راہنمائی اور ان کی درست سمت میں تربیت کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے، اخلاقی گراوٹ اپنے عروج پر ہے، رہی سہی کسر سوشل میڈیا ایک مادر پدر آزاد میڈیم کے طور پر پوری کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کی اس زبوں حالی کا اصل ذمے دار ہمارا بوسیدہ تعلیمی نظام ہے۔ وطن عزیز میں آج بھی کئی نظام ہائے تعلیم نافذ ہیں، جدید اور قدیم تعلیمی اداروں کے علاوہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ادارے ملک کی نظریاتی اساس اور قومی یکجہتی کو کمزور کررہے ہیں۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جب تک ہم اپنے تعلیمی نظام اور نصاب کو قومی امنگوں اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کریں گے تب تک ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی خود کفالت کی منزل کا حصول ناممکن ہے۔ دوسری جانب کرداری سازی کے بغیر تعلیم وتربیت بے مقصد رہ جاتی ہے، اسلامی تعلیمات کے خطوط پر آراستہ یکساں نظام تعلیم اور نصاب وقت کی بنیادی ضرورت ہے، تعلیم میں کردار سازی پر خصوصی توجہ مرکوز کر کے ہی ہم من حیث القوم انتہا پسندی، دہشت گردی، عدم برداشت، کرپشن اور معاشی پسماندگی جیسے مسائل پر قابو پاسکتے ہیں جن ممالک نے تعلیم وتحقیق کے ساتھ ساتھ کردار سازی کو ترجیح دی وہ ساری دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔
ہمارے ارباب اختیار کوکردار سازی کے عمل میں زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات تجویز کرنے چاہئیں۔ اسی طرح قومی یکجہتی کے فروغ، نظریہ پاکستان کے تحفظ وترویج اور فرقہ واریت کے تدارک کے لیے بھی چاروں صوبوں کے لیے نصاب کا یکساں ڈھانچہ تجویز کرنا ہوگا کیونکہ تعلیم کا بنیادی مقصد ہی کردار سازی ہے، یورپ اور جاپان کی ترقی کے پیچھے ان کے تعلیمی نظام میں کردار سازی پر توجہ مرکوزکرنا ہے۔ اس بات میں کوئی دو آرا نہیں ہیں قومیں کردار اور لیبارٹریوں میں علم وتحقیق پر توجہ سے بنتی ہیں جب کہ ہماری اکثر لیبارٹریاں بند پڑی ہیں ان بند لیبارٹریوں کو کھولنا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ اسی طرح ہمیں اپنی لائبریریاں 24گھنٹے آباد کرنی ہوں گی۔ نئی نسل کی کردار سازی کے لیے اس کا آغاز پرائمری سے کر نا ہوگا۔ نصاب کو کردار سازی سے منسلک کرکے تمام مضامین میں کردار سازی سے متعلق مضامین کوشامل کرنا چاہیے۔ یہ غلط تصور ہے کہ بچوں کی صرف سوشل سائنسز کے مضامین میں اخلاقی تربیت اور کردار سازی کی جاسکتی ہے بلکہ یہ ریاضی، فزکس، بیالوجی اور کیمسٹری کے علاوہ پیشہ ورانہ مضامین میں بھی ممکن ہے۔ بچے کی کردار سازی میں اساتذہ، والدین اور معاشرہ سب کا یکساں مقام ہے۔ بچوں کی تربیت اور کردار سازی میں چھے عوامل اعتماد سازی، عزت و احترام، ذمے داری، شفافیت، خیال رکھنا اور سوک سینس پر توجہ بہت ضروری ہے۔ اساتذہ کرام کو بچوں کے لیے رول ماڈل بن کر درس و تدریس کا اہتمام کر نا ہوگا۔ قول و فعل کا تضاد معاشرتی المیہ ہے جس کا تدارک اس تضاد کے خاتمے کی صورت میں ممکن ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسلوں میں وقت کی پابندی، سچ جھوٹ کی تمیز، ایمان داری، خلوص، دیانتداری جیسی صفات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑی سماجی اور معاشرتی تبدیلی چونکہ کردار سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے لہٰذا ہمیں گھر، اسکول، مسجد اور معاشرے کی سطح پر کردار سازی کے ہمہ جہت عمل پر توجہ دینا ہوگی۔