حکمت دیں دل نوازی ہائے فقر

558

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی یوم ولادت پر عام تعطیل کی منظوری دی گئی۔ ساتھ ہی وزیراعظم شہباز شریف نے ایک کمیٹی کی تشکیل کا بھی اعلان کردیا جس میں ملک بھر کے اساتذہ اور دانشور شامل کرکے اُن کے ذمے اقبال کی زندگی اور فلسفہ کو اُجاگر کرنے کے ساتھ اس کے لیے تفصیلی پروگرام تیار کرنے کے احکامات جاری کیے۔ احکام دیر سے تو ہی لیکن خوش آئند ہیں۔ اقبال کو پڑھنا پڑھانا وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زندگی میں بھی قوم کی رہنمائی کی اور بعد میں بھی۔ اقبال کے فارسی مجموعہ کلام ’’اسرار بے خودی میں نظم ’’تمہید‘‘ کا ایک شعر ہے
ای بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد
چشم خرد بر بست و چشم ما کشاد
یعنی بہت سے شاعر ایسے بھی ہیں جو مرنے کے بعد بھی زندہ ہوتے ہیں وہ اپنی آنکھیں بند لیتے ہیں لیکن ہماری آنکھیں کھول دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ شعر خود ان پر صادق آتا ہے۔
اقبال فقر کے بارے میں کہتے ہیں
حکمتِ دیں دل نوازی ہائے فقر
قوتِ دیں بے نیازی ہائے فقر
دین کی حکمت اور مصلحت فقر کی دل نوازی ہے۔ اور دین کی قوت فقر کی بے نیازی ہے۔ اقبال ملت کی قوت کا راز کھولتے ہیں۔ یعنی ملت کے افراد میں انفرادی اور اجتماعی طور پر حقیقی فقرکی صفات پیدا ہوجائیں تو فرد اور ملت دونوں حکمت دیں اور قوت دین سے بہرہ مند ہوں گی پھر دنیا کی کوئی طاقت چاہے کتنی بڑی اور عظیم ہو اُن کو زیر نہیں کرسکتی۔ مومن کا فقر کیا ہے؟ قرآن کس فقر کی تعلیم دیتا ہے؟ یہ مقبروں اور خانقاہوں والا فقر نہیں ہے۔ نہ یہ ایک تارہ لے کر مستی و مدہوشی میں حال کھیلتا ہے۔ تو یہ مجذوبانہ مست ملنگ کی ثقافتی تشہیر کرتا ہے۔ نہ صوفیانہ رقص کا مزاج پیدا کرتا ہے یہ سب تو کچھ اور ہی لوگوں کے دل موہ لیتا ہے جو ان سب کو اپنے دل کا اطمینان سمجھ لیتے ہیں خانقاہی مزاج کی تشہیر اور رواج میں غیر مسلموں کا ہاتھ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس میں اُن کی بقا کا نکتہ پنہا ہے
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے
مومن کا فقر تسخیر حیات ہے جو بحرو بر میں لرزہ پیدا کردیتا ہے مومن کا فقر بحروبر میں ایک صالح اور خوش گوار انقلاب لانے کے لیے سرگرم عمل رہتا ہے۔ وہ اپنی تمام تر خداداد صلاحیتوں اور قوتوں کو اس کی رضا اور اس کے دین کے غلبے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حق کی شہادت کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ باوقار زندگی اور پرشکوہ موت اس کا نصیب بنتی ہے۔ مومن کا فقر ہی اس کو اپنی خودی کے چراغ کو روشن کرنا سکھاتا ہے۔ پھر اس کی روشنی میں اپنی زندگی اور گردوپیش کو اسلام کی تعلیمات کے دائرے میں کھینچ لانے کے لیے سرگرم رہتا ہے۔ اس فقر کا مظہر بدرو حنین اور احد کے میدان ہیں۔ کربلا کے ریگ زار میں سیدنا حسینؓ کا یزید کے مقابلے میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرنا قرآن کا فقر ہے اور احتساب دنیا و مافیھا کی تعلیم دیتا ہے۔
فقر قرآن احتساب ہست و بود
نے رباب و مستی و رقص و سرود
اسلامی فکر میں دین اور سیاست کے علٰیحدہ ہونے کا تصور نہیں، مسلمان اپنی ریاست کو اسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہتے ہیں یہ اُن کے دین و ایمان کا تقاضا ہے۔ وہ اپنے اخلاق اور جس کردار کے لیے قرآن سے واضح احکام حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنا آپ کو اس کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں احتساب و جائزہ لیتے ہیں اس طرح معاشرت تمدن معیشت اور سیاست کے بارے میں بھی قرآن سے رہنمائی حاصل کرکے اپنے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں۔
پھر ہر مشکل اور رکاوٹ کا سامنا پوری ثابت قدمی سے کرتے ہیں۔ کوئی ناکامی اُن کے پائوں کی زنجیر نہیں بنتی۔ 1970ء کے انتخابات کے زمانے میں ایک روز کسی نے مولانا مودودی سے سوال کیا۔ مشرقی پاکستان موجودہ بنگلادیش میں مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ مولانا نے کہا ’’اگر مشرقی پاکستان میں شیخ صاحب اور مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کامیاب ہوگئے تو پاکستان کا خدا ہی حافظ ہوگا‘‘۔ (پھر انتخابی نتائج بھی ایسے ہی آئے اور سال بھر میں پاکستان دولخت ہوگیا)۔
یہ ایک عالم دین اور مفسر قرآن کا سیاسی شعور تھا جس کی جڑیں مومن کے فقر سے پیوستہ ہیں۔
گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلمان کا
بیاناں کی شب تاریک میں قندیل راہ بانی
اسی انتخابات کے بعد اگلے روز مولانا کے گھر پر کافی لوگ جمع تھے۔ اور مولانا اپنے گھر کے لان کے بجائے برآمدے سے ذرا آگے بیٹھے تھے۔ قریب ہی ایک گاڑی سے ٹیک لگا کر میاں طفیل محمد کھڑے تھے۔ عجیب اداسی کا سماں تھا۔ کارکن خاصے بد دل نظر آرہے تھے کیوں کہ نتیجہ بڑا مایوس کن تھا۔ کسی صاحب نے خاموشی کا سکوت توڑتے ہوئے سوال کیا ’’مولانا کیا یہ نتیجہ ہمارے کارکنوں کی کاوش میں کوتاہی کی وجہ سے تو نہیں ہوا۔ مولانا نے ایک لمحے کا توقف کیسے بغیر قدرے بلند اور مضبوط لہجے میں کہا ’’نہیں نہیں ایسا نہیں ہوا ہے بلکہ جماعت کے ان مخلص اور تنگ دست کارکنوں نے تو بھوکے رہ کر اور اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے سخت مشکل حالات میں کام کیا ہے۔ 1963ء میں نواب آف کالا باغ گورنر تھے۔ جماعت کا اجتماع تھا ادھر مولانا تقریر کے لیے کھڑے ہوئے کسی بدمعاش نے دیے گئے اہداف کے مطابق فائرنگ شروع کی شامیانوں کی رسیاں کاٹی جانے لگیں مگر بھگدڑ کی حسرت ہی رہی، جلسہ درہم برہم نہیں کیا جاسکا۔ یہی لمحہ تھا جب مولانا سے برستی گولیوں میں بیٹھنے کی استدعا کی گئی مولانا جانثاروں کے حلقے میں تھے، بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہوئے کہ اگر آج میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا۔ ایک جاں باز کارکن اللہ بخش شہید ہوئے۔ یہ آئینہ ہے آج کے سیاست دانوں کے لیے کسوٹی ہے دین اور دنیا کے لیے کی جانے والی سیاست کے فرق کے لیے۔ بہرحال نواب آف کالا باغ حسب خواہش خبر سرکار کو نہ سنا سکے۔ اپنے شہید ساتھی کا مقدمہ مولانا نے اللہ کی سازگار میں درج کروادیا۔ اور قادر مطلق نے خوں کا حساب ایسے لیا کہ ظالم انگشت بدنداں رہ گئے۔ گولیاں چلانے والے پولیس مقابلے میں چھلنی ہوئے، حکم دینے والا ایس پی کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوا کہ گلے سے نکلنے والی آواز کتے کے بھونکنے سے مشابہ ہوگئی۔ نواب آف کالا باغ کا اپنا بیٹا مقابل کھڑا ہوگیا۔ وہ بھی اس طرح کہ اگر لمحہ بھر چوک جاتا تو باپ کی پستول کا نشانہ بنتا مگر اس نے باپ کو مہلت نہ دی اور اسٹین گن کا برسٹ مار کر چہرہ اور اوپر کا دھڑ بالکل مسخ کردیا یوں اپنے خون نے خون شہیدان کا بدلہ لے لیا۔ بڑی سرکار بھی ایوب خان اس حال میں اقتدار سے الگ ہوئے کہ عوام نے ان کے خلاف مکروہ نعرہ بازی کی۔ آخری وقت چارپائی پر فالج کے سبب بے بسی اور بے کسی کی حالت میں گزارا۔ فاعتبرویااولی الابصار۔