رہائشی منصوبوں کی بھرمار

439

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک کام کی تکمیل اور ایک مقصد کے حصول کی خاطر بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات ایسے فیصلے کر بیٹھتے ہیں جن کا نتیجہ کچھ وقت بعد شدید نقصان اور پشیمانی کی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک بہترین اور بر موقع مثال ہمارے ہاں تھوک کے حساب سے راتوں رات ہزاروں کی تعداد میں بننے والی ہائوسنگ اسکیمیں ہیں۔ پچھلے پندرہ بیس سال کے دوران اس سیکٹر میں راتوں رات امیر بننے کے چکر میں بے دریغ سرمایہ کاری ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ہماری زرعی زمینیں، کھلے میدان، جنگلات اور کھیت کلیان مسلسل سکڑ رہے ہیں۔ یہ رہائشی منصوبے چونکہ زیادہ تر زرعی زمینوں پر بنائی گئی ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اس لیے اگر ان منصوبوں کی یہی رفتار رہی تو تھوڑے عرصے بعد شاید ہمیں کاشت کاری اور زراعت کے لیے ڈھونڈنے سے بھی زمین نہیں ملے گی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم رنگ روڈ سے ملحقہ جس علاقے موضع سفید ڈھیری میں پلے بڑھے ہیں وہاں کی زرعی زمینیں دریائے باڑہ کے پانی سے سیراب ہواکرتی تھیں، یہ پانی مختلف کھالوں اور نالوں کے ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعے باڑہ کے نشیبی علاقوں شیخ محمدی، سنگو لنڈے، سربند اور پشتخرہ بالا سے ہوتا ہوا ہمارے گائوں میں پہنچ کر وہاں سے یونیورسٹی ٹائون، پائوکہ اور آبدرہ کے راستے تہکال تک کے علاقوں کو سیراب کرتا تھا۔ اس پانی کو بڑے شوق سے پینے، نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی دریائے باڑہ سے انگریزوں کے دور حکومت میں بھی پشاور چھائونی کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جاتا تھا جس کے لیے پشتخرہ پایان میں باقاعدہ پمپنگ ہائوس بنایا گیا تھا جس کے آثار اب بھی موجود ہیں۔
اسی طرح وہ مناظر اب بھی ہماری یادداشت میں محفوظ ہیں جب شام ڈھلتے ہی گائوں کی خواتین مٹکے اپنے سروں پر اٹھا کر اور بغلوں میں داب کر قریبی ندی نالوں سے پانی بھرنے کے لیے ٹولیوں کی شکل میں گھروں سے نکلتی تھیں۔ اس بہانے گائوں کی خواتین کی جہاں چھوٹی موٹی آئوٹنگ اور چہل قدمی ہوجایا کرتی تھی وہاں انہیں راہ چلتے اور پانی بھرتے ہوئے ایک دوسرے کو دن بھر کی پبتا سنا کر اپنی دن بھر کی تھکاوٹ دور کرنے کا موقع بھی ہاتھ آجاتا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب نہ تو آبادیاں اتنی تیزی اور بے ہنگم طور پر پھیلی ہوئی تھیں اور نہ ہی ابھی ٹیلی وژن، ٹیلی فون، موبائل اور انٹر نیٹ اتنے عام ہوئے تھے کہ اب جن سے فرصت کے لمحات نکالنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ اب تو ہماری سستی وکاہلی، اخلاقی پستی اور خود غرضی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمیں اپنے گھروں کے فلش ان ہی متذکرہ صاف پانی کے نالوں میں شامل کرنے پر بھی کوئی شرم نہیں آتی ہے اور نہ ہی اب اس عمل کوکوئی برا سمجھتا ہے جس سے ان ندی نالوں میں بہنے والے صاف پانی کا تصور ہی ناپید ہو گیا ہے۔
سڑکیں اور نئی نئی بستیاں زندگی کی ضرورت ہیں لیکن یہ ضروریات زرعی زمینوں کی بربادی کی قیمت پر پوری نہیں ہونی چاہئیں۔ رنگ روڈ بلاشبہ وقت کی ضرورت تھی لیکن اس کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے وہ اس کے فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بنا ہے۔ رنگ روڈ کو اگر محض ٹریفک کے متبادل نظام کے طور پر لاگوکرکے اس کے ارد گرد قیمتی زرعی زمینوں کو جنگلے لگا کر یا کسی بھی طرح حتیٰ کی قانون سازی کے ذریعے ضائع ہونے سے محفوظ بنایا جاتا تو اس کا زرعی شعبے کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کے بجائے فائدہ ہوتا لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ رنگ روڈ کے آرپار ہمیں کئی کئی میل تک زرعی زمینیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں بلکہ ان کی جگہ بھانت بھانت کے رہائشی منصوبے ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔
اسی رنگ روڈ کے ارد گرد واقع زرعی زمینوں پر کبھی لوگ سائبیریا اور وسطی ایشیا سے غول درغول آنے والے جنگلی پرندوں کا شکار کیاکرتے تھے لیکن اب نہ تو ہمیں وہ پرندے نظر آتے ہیں اور نہ ہی وہ شکاری اور شکار گاہیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو کبھی شکاریوں کی دلچسپیوں کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔ حسرت اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ افراتفری اور بدانتظامی حکومتی اداروں اور منتخب نمائندوں کی آنکھوں کے سامنے اور ان کی ناکوں کے نیچے ہورہی ہے اور بدقسمتی سے کسی بھی سطح پر اس پریشان کن صورتحال کی روک تھام اور اصلاح احوال کے لیے نہ تو کوئی آواز اٹھتی ہوئی نظر آرہی ہے اور نہ ہی کوئی قدم اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو ہماری اجتماعی بے حسی اور لاپروائی کی انتہا ہے جس پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔