پاکستانی صحافت یا موت کا کنواں

690

صدف نعیم کی اندوہناک موت ہو یا ارشد شریف کا قتل یہ دونوں المیے کوچہ صحافت پر گزرے ہیں۔ خبر کی تلاش میں اور بریکنگ نیوز کی دوڑ میں اکثر صحافی خطرناک حدیں بھی پار کر جاتے ہیں اور موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ ان دونوں نے بھی یہی کیا تھا۔ بے رحم سیاست دانوں نے ان کی لاشوں پر بھی سیاست کرنے سے گریز نہیں کیا۔ ارشد شریف تفتیشی صحافت کے سپاہی تھے ان کے پاس کئی سیاست دانوں کے راز تھے ان میں ہر سیاسی جماعت شامل ہے سب ہی ان سے خوفزدہ رہتے تھے اور کچھ اداروں کی اندرونی کہانیاں انہیں معلوم تھیں۔ ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں ان کے چینل نے اپنا دل وجان تو نچھاور کیا ہی تھا انہیں بھی قربان کردیا، جس کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے ان کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات قائم کردیے گئے تھے جن کا تعلق ان کے نشر ہونے والے پروگراموں سے تھا۔ ان مقدمات کی روشنی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ ان صحافیوں کو جن کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے ہیں ان کو عدالت کی اجازت کے بغیر پولیس کے حوالے نہ کیا جائے۔ کیونکہ ان کے خلاف دور دراز کے تھانوں میں مقدمات درج ہوئے تھے اور ان علاقوں کی پولیس اسلام آباد آکر انہیں گرفتار کرکے لے جانا چاہتی تھی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے سربراہ اور ڈپٹی کمشنر کو حکم دیا تھا کہ صحافیوں کے خلاف ملک کے مختلف صوبوں میں درج ہونے والے مقدمات میں ان صحافیوں کو عدالت کی اجازت کے بغیر مقامی پولیس کے حوالے نہ کیا جائے۔ عدالت نے یہ حکم صحافی ارشد شریف، سمیع ابراہیم اور اینکر پرسن معید پیرزادہ کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواستوں پر دیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ’’اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن خلاف آئین ہے اور عدالت کسی بھی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کرے گی‘‘۔ اس موقع پر ارشد شریف عدالت میں پیش ہوگئے تھے۔
یہاں یہ سوال نہیں ہے کہ کون سا صحافی کس سیاسی جماعت کی ترجمانی کررہا ہے اور وہ کیا کہہ رہا ہے اور کہیں وہ ریڈ لائن تو پار نہیں کرگیا؟ لیکن یہ ریڈ لائن کیا ہے؟ اسے کس نے کھینچا ہے؟ سیاسی جماعتوں کے لیڈروں پر اس کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا؟ ان لیڈروں کے بیانات کو نشر کرنے والے صحافیوں اور ان کے اداروں پر ہی نزلہ کیوں گرتا ہے؟ سیاسی جماعتیں اپنی تشہیر کے لیے صحافیوں پر اپنا مال و متاع لگاتی ہیں لیکن جب ان پر مصیبت آتی ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ جب سے الیکٹرونک میڈیا یا برقیاتی ذرائع ابلاغ میدان میں آیا ہے اس وقت سے سیاسی جماعتوں کو لائیو کوریج کا چسکا پڑ گیا ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے ٹی وی چینل اس قسم کی کوئی بدعت نہیں کرتے۔ میرا یہ مشورہ ہے کہ پاکستان میں صرف صدر اور وزیر اعظم کی اہم مواقع پر ہونے والی تقاریر کو لائیو نشر کیا جائے باقی سیاسی رہنماؤں کی تقاریر کی رپورٹنگ کی جائے یہ ضابطہ اخلاق صحافتی تنظیمیں اور صحافتی ادارے از خود بنائیں۔ تاکہ صحافتی ادارے سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں یرغمال نہ بن سکیں کیونکہ اپنی لائیو کوریج کے لیے سیاسی جماعتیں ٹی وی چینلوں پر اپنا دباؤ ڈالتی ہیں اس کے لیے اگر وہ حکومت میں ہوں تو اس کے وسائل کو استعمال کرتی ہیں۔ ماضی میں سیاسی جماعتوں کی اس طرح کی بلیک میلنگ کا شکار کئی صحافتی ادارے رہے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے ہر جماعت نجی نشریاتی اداروں پر اپنا دباؤ بڑھا کر اپنی کوریج ہمہ وقت چاہتی ہے۔ اس کے لیے نجی نشریاتی اداروں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں صحافی اور رپورٹرز ان لیڈروں کی گاڑیوں کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اس میں مرد وزن کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ صدف نعیم بھی اسی دوڑ میں عمران خان کے کنٹینر کے نیچے آکر کچلی گئیں۔ اس لیے کہ پی ٹی آئی نے میڈیا کے لیے کوئی الگ کنٹینر یا جگہ نہیں بنائی تھی۔
صحافتی تنظیموں اور صحافتی اداروں کو سیاسی جلسوں میں اپنے رپورٹروں کو بھیجنے سے پہلے سیاسی جماعت سے اس بات کی ضمانت لے لینی چاہیے کہ ان رپورٹروں کی سیکورٹی اور سہولتیں وہ سیاسی جماعت ہی مہیا کرے گی تب ہی تمام ٹی وی چینل ان کی سیاسی سرگرمی کی کوریج کریں گے۔ واقعاتی طور پر کہا جارہا ہے کہ 30 اکتوبر کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے لانگ مارچ کی کوریج کے دوران ایک المناک حادثے میں چینل 5 کی خاتون رپورٹر صدف نعیم کی شہادت کا ذمے دار عمران خان کے کنٹینر پر موجود گارڈز تھے جنہوں نے صدف نعیم کو چلتے کنٹینر سے دھکا دیا جس کا نتیجہ لازماً موت ہی تھا۔ لیکن وہ لوگ بھی اس حادثے کے ذمے دار ہیں جنہوں نے صدف نعیم کو اس ریلی کی کوریج کے لیے وہاں بھیجا تھا جس کی وجہ سے ان کے اوپر شدید ذہنی دباؤ تھا جس نے انہیں چلتے کنٹینر پر چڑھنے پر مجبور کیا۔ صدف نعیم کی موت وفاقی اور صوبائی حکومتوں، میڈیا مالکان، میڈیا تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے لیے ایک ایک المناک یاد دہانی کی کال ہے کہ وہ سیاسی جلوسوں، شہری بدامنی، جرائم کے مناظر اور یہاں تک کہ دہشت گردی کے حملوں جیسے خطرناک کاموں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی حفاظت کے لیے بے جا غفلت کو ختم کریں۔ اگرچہ صدف کی موت بظاہر ایک حادثہ تھا، لیکن اگر مناسب حفاظتی اقدامات اور پروٹوکول موجود ہوتے تو اس المناک واقعے سے بچا جاسکتا تھا۔
صحافیوں کے تحفظ کی بنیادی ذمے داری ان کے آجروں پر عائد ہوتی ہے۔ صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کے ایکٹ، 2021 کے تحت آجر قانونی طور پر اپنے عملے کو انشورنس فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ’’مناسب اور موثر تربیت‘‘، فراہم کرنے کے ذمے دار ہیں۔ قومی میڈیا تنظیمیں پاکستان فیڈرل یونینز آف جرنلسٹس، پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن، الیکٹرونک میڈیا ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز سیاسی سرگرمیوں کی کوریج کے دوران صحافیوں کے تحفظ کے لیے موثر ہدایات وضع کریں۔ ان اداروں اور تنظیموں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی مفت میں وہ کوریج کررہے ہیں جس کے لیے مغرب کی سیاسی جماعتیں اشتہار کی صورت میں ادائیگی کرتی ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کا پاور شو ہوتا ہے جس کو وہ ملک بھر میں دکھا کر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہی ملک کی مقبول ترین جماعت ہے اور یہ سیاسی جماعتیں یہ چاہتی ہیں انہیں دوسری سیاسی جماعت پر برتری دی جائے۔ ٹی وی چینلوں کے صارفین کے ساتھ یہ زیادتی ہوگی کہ ان کو جبراً گھنٹوں تک کسی ایک سیاسی جماعت کی سرگرمی دکھائی جائے۔ جبکہ یہ میڈیا پرسنزکی یہ ذمے داری ہے کہ وہ صرف خبریں اپنے چینل پر نشرکریں جلسوں کی لائیو کوریج میں قوم کا وقت نہ ضائع کریں کیونکہ آج کل سیاسی جماعتوں کے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیں جن پر وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کی کوریج کررہے ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے لیے میڈیا ہائوسز کو اپنی توانائیاں مفت میں ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
صدف نعیم کی موت ایک المناک یاد دہانی ہے کہ محض قوانین کی منظوری سے پاکستانی میڈیا کے پیشہ ور افراد کے لیے محفوظ ماحول پیدا نہیں ہوگا اس کے لیے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس وقت ان صحافیوں کو جو ایک مخصوص سیاسی جماعت کی پالیسی اور نظریے کے قریب ہیں، آج ان کو جس قدر خطرات کا سامنا ہے اتنا خطرہ اس جماعت کے رہنماؤں اور لیڈروں کو نہیں ہے۔ اس لیے آج کی یہ ضرورت ہے کہ رپورٹرز کی خاص تربیت ہو اور وہ محض بازی لے جانے کے لیے اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ دوسری جانب جن اداروں کو صحافیوں سے شکوہ ہے ان کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کا وہ حکم موجود ہے جو اس نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے دیا تھا کہ صحافیوں کے خلاف شکایت کی صورت میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی صحافتی تنظیموں کے ساتھ رابطہ کرے۔ 2020 میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جی) نے ’’عالمی صحافت پر وائٹ پیپر‘‘ میں پاکستان اور بھارت سمیت 5 ممالک کو ’’دنیا میں عملی صحافت کے لیے خطرناک ترین ممالک‘‘ کے طور پر درج کیا گیا۔ وائٹ پیپرکے مطابق 1990-2020 کے درمیان، پاکستان میں 138 صحافی قتل ہوئے تھے۔ آج بھی سیاست دانوں اور اداروں کی آپس کی جنگ کا ایندھن صحافی بن رہے ہیں۔ یہ خود صحافیوں کو سوچنا ہوگا کہ انہیں سیاست دانوں کی جنگ کا ایندھن بننا ہے یا اپنا پیشہ ورانہ فرض نبھانا ہے۔