کسان پیکیج کا اعلان

657

حکومت کی جانب سے ملک بھر کے کسانوں کے لیے 1800 ارب روپے پرمشتمل پیکیج کے اعلان سے کسانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ حکومت نے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب ایک جانب ملک کی معاشی حالت انتہائی خراب ہے اور دوسری جانب سیاسی لحاظ سے بھی ملک میں افراتفری اور بے اعتمادی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں وزیر خزانہ، وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات کے ہمراہ اس بڑے پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں کسانوں کو دیے جانے والے قرضوں میں 400 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس پیکیج میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے کسانوں کو دیے جانے والے قرضوں پر 10 ارب روپے سے زائد منافع کی چھوٹ بھی الگ سے دی جائے گی۔ اِس پیکیج میں دیہی علاقوں کے وہ نوجوان جو زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں ان کو بھی 50 ارب روپے کے قرضے دیے جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے حکومت قرضوں پرمارک اپ کے ضمن میں چھے ارب چالیس کروڑ روپے کی سبسڈی دے گی۔
کسان پیکیج میں ڈی اے پی کھاد کی نئی قیمت گیارہ ہزار دوسو پچاس روپے فی بوری مقرر کی گئی ہے جس میں ڈھائی ہزار روپے فی بوری کی سبسڈی شامل ہے۔ اس پیکیج کے تحت قرضوں کے مارک اپ پر سبسڈی دینے کے لیے پانچ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو سیلاب سے متاثرہ کسانوں کو فراہم کی جائے گی۔ کسان پیکیج کا ایک اور اہم پہلو استعمال شدہ ٹریکٹر زکی درآمد کی اجازت دینا ہے جس کے تحت کسان پانچ سال تک پرانے ٹریکٹرز درآمد کرسکیں گے۔ پانچ سال پرانے ٹریکٹرز پر ڈیوٹی میں پچاس فی صد رعایت جبکہ تین سال پرانے ٹریکٹر زکی ڈیوٹی پر چھتیس فی صد رعایت دی جائے گی جب کہ حکومت نے اس پیکیج کے تحت پانچ لاکھ ٹن یوریا درآمد کرنے کا انتظام بھی کیا ہے جس کے لیے تیس ارب روپے سبسڈی فراہم کی گئی ہے۔
اگر دیکھا جائے توحکومت کا 1800 ارب روپے کا پیکیج ان کسانوں کے زخموں پر ایک مرہم کا کام کرے گا۔ ہمارے کسانوں کے لیے اس پیکیج سے زیادہ اہم اور کیا ہو سکتا ہے جو تباہ کن سیلاب کی وجہ سے بے پناہ مسائل کے شکار ہیں۔ درحقیقت عالمی بینک جیسی بین الاقوامی ترقیاتی تنظیمیں پہلے ہی حکومت پر زور دے رہی تھیں کہ وہ ملک کے اس تباہ حال سیکٹر کے لیے کچھ کرے۔کسانوں کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ زیریں سندھ کے کچھ حصوں سے سیلابی پانی ابھی تک کم نہیں ہوا ہے اور باقی سیلاب زدہ علاقوں میں بھی کھیتی باڑی اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اس لیے خدشہ ہے کہ آنے والی گندم کی فصل کی بوائی میں بھی تاخیر ہوسکتی ہے۔ حالیہ سیلاب سے ملک کے زرعی شعبے کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے تاریخ میں پہلی دفعہ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں نہ صرف بے تحاشا اضافہ ہو اہے بلکہ ان کی درآمدکی ضرورت بھی پیش آ گئی ہے۔
وطن عزیز میں اس وقت مہنگائی کی مجموعی شرح 36 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ توانائی اور خوراک کی قیمتیں ہمارے ملک میں مہنگائی کے دو بڑے محرک ہیں۔ اگر اس پیکیج کے نتیجے میں مقامی خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے قیمتیں کم ہوتی ہیں تو اس کے فوائد لامحالہ عام پاکستانیوں کو حاصل ہوں گے۔ یہ بات بھی حوصلہ افزاء ہے کہ حکومت نے توانائی، بیجوں اور کھادوں کے ساتھ ساتھ ٹریکٹر جیسے زرعی آلات پر بھی سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح سیلاب سے تباہ ہونے والے کسانوں کا قرض بھی چڑھ گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسان پیکیج صحیح سمت میں ایک بروقت قدم ہے جس سے عام کسانوں کوکافی حدتک ریلیف ملنے کا امکان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو تمام بڑی فصلوں کے لیے امدادی قیمتوں کا اعلان کرنے میں بھی کوئی وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
مختصراً کسان پیکیج زبانی جمع خرچ کی حد تک تو اچھا لگتا ہے لیکن ہمیں اس کی اصل اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس وقت ہوگا جب ہم یہ دیکھیں گے کہ اس پر عمل کیسے ہوتا ہے۔ پیکیج پر عمل درآمد وفاقی سطح پر حکومت کی صلاحیت کا امتحان ہے۔ اس لیے دیکھنا ہوگا کہ وہ ملک کے کسانوں کے اعتماد اور امیدوں پر کس حد تک پورا اُترتی ہے۔ البتہ اس پیکیج کے حوالے سے ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ جو سبسڈی دینے کا اعلان کیا گیا ہے اس کا کتنا تناسب چھوٹے کاشت کاروں تک پہنچے گا اور آیا وہ اس سے مستفید ہو سکیں گے یا نہیں حکومت کو اس بڑے پیکیج پر عمل درآمد کرتے وقت ان جزیات اور سنجیدہ معاملات پر لازماً نظر رکھنی چاہیے بصورت دیگر اس بڑے اور بظاہر انتہائی اہم اعلان کا نتیجہ بھی کسی بڑے فائدے کے بجائے ممکنہ نقصان کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے لہٰذا توقع ہے کہ متعلقہ حکومتی ادارے اس کسان پیکیج پر عمل درآمدکے ضمن میں جزبہ حب الوطنی سے کام لیں گے۔