جرنیلوں کی نیوز کانفرنس اور لانگ مارچ

483

آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو گز شتہ جمعرات کے روز اچانک نیوز کانفرنس کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ قارئین کرام، یہ ہے وہ سوال جو ایک اوسط درجے کا پاکستانی بھی اس کانفرنس سے پہلے سوچنے پہ مائل تھا۔ کانفرنس سننے کے بعد اس کا جواب یوں سامنے آیا کہ اس غیر متوقع کانفرنس میں مقتدر حلقوں پر ہونے والی بے بنیاد الزام تراشی کے حوالے سے مسکت جواب تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کا بنفس ِ نفیس اس نیوز کانفرنس میں شریک ہونا اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور یہ ملکی تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ کسی حاضر سروس آئی ایس آئی چیف کو نیوز کانفرنس کرنا پڑی ہو۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھا کہ ایک طرف عساکر ِ پاکستان کے سربراہ کو مدت ِ ملازمت میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی پیشکش کی گئی، مگر جب یہ پیشکش ٹھکرا دی گئی اور آئینی کردار پر اصرار کیا گیا تو پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا۔ ترجمان عساکر ِ پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ یہ نیوز کانفرنس ایک ایسے موقع پر کی جا رہی ہے جب حقائق کا صحیح ادراک بہت ضروری ہے تاکہ فیکٹ، فکشن اور رائے میں تفریق کی جاسکے اور سچ سب کے سامنے لایا جاسکے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ کہنا بالکل صائب تھا کہ سائفر اور صحافی ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے تاکہ اس سلسلے میں کسی قسم کا ابہام اور قیاس آرائی پیدا نہ ہو اور قوم سچ جان سکے۔
اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ پچھلے چند مہینوں سے بالخصوص جب سے گزشتہ حکومت کو عدمِ اعتماد کے آئینی طریقے سے رخصت کیا گیا ہے اداروں کے خلاف نہ صرف ایک بیانیہ بنایا بلکہ مسلسل پھیلایا بھی جا رہا ہے اور یہی حالیہ دنوں میں سینئر صحافی کے کینیا میں پولیس کے ہاتھوں ہونے والے افسوسناک قتل کے بعد بھی دیکھنے میں آیا جب بنا کسی ثبوت اور شواہد کے اداروں کی سینئر قیادت کو نشانے پر رکھ لیا گیا اور اس حوالے سے منظم مہمات چلائی گئیں جن کا مقصد بظاہر اس کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا کہ دفاعی اداروں کی قیادت کو متنازع بنایا جائے۔ اس سے قبل اگست کے پہلے عشرے میں بھی سوشل میڈیا پر عسکری اداروں کے خلاف ایک منظم مہم چلائی گئی تھی جس کے بعد حکومت نے کریک ڈائون کر کے چند افراد کو گرفتار بھی کیا تھا جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ جب اپنے محدود سیاسی مفادات کے لیے ریاستی اداروں کو نشانۂ مشق بنایا جاتا ہے تو نوجوان ذہن اس کا اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتے اور جذبات سے مغلوب ہو کر ریڈ لائن عبور کر جاتے ہیں لہٰذا نوجوانوں کو ایسی منفی مہمات سے دور رکھنے کا یہی طریقہ ہے کہ حقائق اور سچ کو فروغ دیا جائے تاکہ حقیقت، قیاس، گمان اور رائے میں تفریق کی جا سکے۔ سینئر صحافی کے افسوسناک قتل کے بعد بلاجواز الزام تراشی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے خیر کا کوئی پہلو برآمد نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے کمیشن کی جامع تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے تاکہ حقائق واضح ہو کر سب کے سامنے آ سکیں۔ سیاسی مقبولیت کا زور قومی ترقی پر صرف ہو تو قابل ِ تقلید لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو کم از کم اسے تخریبی مقاصد کے لیے بروئے کار نہ لایا جائے۔ پاکستان کے تمام سیاسی رہنما جہاں دیدہ ہیں ایسا نہیں کہ وہ مثل ِ آفتاب روشن ان حقائق کو سمجھ نہ سکتے ہوں۔ باہمی سیاسی اختلافات کے باوجود وہ قومی فلاح کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی ترقی کی منزل پر پہنچنے کے لیے جو طریقہ کار کے اختلافات ہیں انہیں ملک دشمنی اور غداری سے تعبیر نہ کیا جائے اور بامعنی اور جمہوری اقدار سے ہم آہنگ مکالمے کے ذریعے درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
اور اب تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ 28، اکتوبر سے لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا آغاز کردیا ہے۔ خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ رکوانے کی حکومتی استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا تھاکہ لانگ مارچ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی ہے، عدلیہ کسی جماعت کی سیاسی حکمت عملی کو نہیں دیکھ سکتی۔ حکومت کو بھی اس کا جواب اپنے سیاسی اقدامات سے دینا چاہیے اس کے لیے باہم مکالمہ بھی کرنا پڑے تو کرنا چاہیے۔ یادش بخیر عمران خان نے مئی کے لانگ مارچ کے وقت ایک بیان حلفی میں عدلیہ کو ڈی چوک نہ جانے کی یقین دہانی کرائی تھی جس پر بعد ازاں عمل نہ کیا، اسی تناظر میں حکومت نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی کہ عمران خان کو لانگ مارچ کرکے وفاقی دارالحکومت میں داخلے سے روکا جائے۔ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں خدشہ ہے کہ عمران خان کے لوگ پہلے کی طرح ہتھیار بند ہوکر اسلام آباد میں داخل ہوں گے جس سے امن و امان قائم رکھنے کے ذمے دار ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم بھی ہوسکتا ہے، یہ خدشہ اتنا بے بنیاد بھی نہیں کیونکہ 25مئی کا جلوس اچانک ختم کردینے کے اعلان کی وضاحت میں عمران خان خود اقرار کرچکے ہیں کہ انہیں جلوس کے شرکاء کے پاس خطرناک آتشیں اسلحہ کی موجودگی کا پتا چل چکا تھا اسی لیے انہوں نے فوری جلوس ختم کرکے واپسی کی راہ لی۔ عمران خان کے اسی بیان کے تناظر میں اگر حکومت تحفظات کا شکار ہے تو وہ حق پر ہے کہ بہر حال امن و امان برقرار رکھنے کی ذمے داری حکومت کے کندھوں پر ہے۔ اس کے لیے اسے امن و سلامتی کے ضامن ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ جیسے ادارے کا تعاون بھی درکار ہے کیونکہ اس بار تو عمران خان اپنے ایک حامی میڈیا پرسن کی المناک موت کا نوحہ بھی پڑھتے آرہے ہیں جس میں ان کی اور ان کے دیگر ساتھیوں کی شعلہ نوائی سے ہجوم کے جذبات آناً فاناً بھڑک سکتے ہیں۔ عمران خان کے ہمدم دیرینہ فیصل واوڈا نے پہلے ہی خبردار کردیا ہے کہ وہ لانگ مارچ میں خون ہی خون اور لاشیں ہی لاشیں دیکھ رہے ہیں اس کھلے انتباہ کے باوجود اگر عدالتی منصب دار کسی حادثے کے وقوع پزیر ہونے پر ہی کسی قسم کا اقدام کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں تو یہ اپنی جگہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
کہا تو یہی جارہا ہے کہ عمران خان اس بار ریڈ زون میں داخلے کے حامی نہیں اور عدالتی فیصلے کی روشنی میں پرامن رہتے ہوئے دھرنے کے لیے مخصوص جگہ تک ہی محدود رہیں گے لیکن ان کی ایک پہچان یوٹرن پالیسی بھی ہے جسے نظر انداز کرنا مشکل ہے اسی لیے حکومت نے مبینہ طور پر دستور کی شق 245 کے تحت وفاقی دارالحکومت کی حفاظت کے لیے فوج اور رینجرز کو طلب کررکھا ہے جبکہ سندھ سے بھی پولیس کی نفری اسلام آباد بلائی گئی ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی یہ بات فکر انگیز ہے کہ 2014ء میں چین کے صدر کے دورہ پاکستان کو سبوتاژ کرنے کے لیے عمران خان نے دھرنا دیا اور اب وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف چین کے دورے پر ہیں جس میں سی پیک کے زیر التواء منصوبے فعال ہونے کی امید ہے اور عمران خان ایک بار پھر ملک میں بدامنی پیدا کرکے نجانے کن کے مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب پاکستان سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہوکرشدید ترین معاشی بحرانوں کا سامنا کررہا ہے ملک کے سابق وزیر اعظم اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر عمران خان کو ایک ذمے دار محب وطن سیاسی رہنما کا کردار ادا کرنا چاہیے اور ملک کو انتشار و افتراق اور بدامنی کا شکار کرنے کے بجائے سنجیدگی اور متانت سے کام لینا چاہیے۔ ملک و قوم کے لیے ذاتی انا کی قربانی ہی صحیح معنوں میں کسی سیاست دان کے محب وطن اور ایثار پیشہ ہونے کی نشانی ہے۔