تہذیبی خود کشی

569

ملک کی ایک بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی کے چانسلر اپنا سر پکڑے بیٹھے تھے کہ ان کی یونیورسٹی طالب علموں کو جدید ترین آلات اور نصاب تعلیم اور بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آنے والے اساتذہ بھی محنت کے ساتھ پڑھا رہے ہیں، لیکن وہ معیار حاصل نہیں ہورہا ہے جو ان مضامین کی سند کے عالمی طور پر تسلیم کرنے کے لیے درکار ہے اور ان کا کہنا تھا کہ ان سے خود طالب علموں نے یہ شکوہ کیا ہے کہ انگریزی میں پڑھائے جانے کی وجہ سے نہ ان کی سمجھ میں نفس مضمون (کونٹینٹ) آتا ہے اور نہ ہی انہیں انگریزی زبان پر عبور حاصل ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں یا انگریزی کی؟ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں یا انگریزی ادب میں مہارت کی سند لینے آئے ہیں، ان طالب علموں کا زیادہ وقت انگریزی گرامر سیکھنے میں لگ جاتا ہے اس کے نتیجے میں وہ اپنے اصل مضمون کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کا نظام تعلیم پاکستان کے لیے ماہرین اور ہنرمند تیار نہیں کررہا ہے ہماری ساری محنت مغرب اور دیگر ممالک کے لیے ذہنی اور جسمانی غلام تیار کرنا ہے۔ کیونکہ اس نظام سے فارغ التحصیل طلبہ کی سب سے بڑی دلچسپی یہ ہوتی ہے کہ انہیں بیرون ملک ملازمت اور وہاں کی شہریت مل جائے۔
بظاہر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نیشنل کوالی فیکیشن فریم ورک آف پاکستان 2015کی پالیسی میں بہ زبان انگریزی یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اردو اور انگریزی کی ’’فنکشنل نالج‘‘ ہونا ضروری ہے۔ خیالات اور تصورات کی منتقلی کے لیے اردو اور انگریزی کی عملی معلومات ہونا ضروری ہے۔ نظریات (تھیوری) تصورات کی منتقلی کے لیے اردو اور انگریزی میں مہارت ضروری ہے۔ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اردو اور انگریزی کی پیشہ ورانہ مہارت ضروری ہے’’۔ غرض ہرجگہ یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ تعلیم کے حصول کے لیے اردو اور انگریزی کی مہارت مساوی طور پر ضروری ہے۔ لیکن جہاں یہ پالیسی بیان کی گئی ہے وہاں یہ شرط بھی عائد کی گئی ہے کہ اگر طالب علم نے اپنے امتحانی پرچے میں جواب انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں دیا ہے تو اس کی سند/ ڈگری/ سرٹیفکیٹ اور کسی بھی دستاویز پر یہ واضح کیا جائے گا کہ اس نے کس زبان میں جواب دیا۔ اگرچہ ہر جگہ ذریعہ تعلیم کے طور پر اردو کا مساویانہ ذکر ہے، لیکن انگریزی زبان کو مستند گردانا گیا ہے۔ لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ ایچ ای سی کی جانب سے ملک بھر کی جامعات میں حکماً انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں تدریس پر پابندی ہے، یہاں تک کہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں گریجویشن اور ماسٹرز کے لیے بھی ذریعہ تعلیم انگریزی زبان ہے۔ جو یونیورسٹی کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی ہے یہاں تک کہ وہاں اسلامیات کی تدریس بھی انگریزی زبان میں ہورہی ہے۔ ہر یونیورسٹی میں کوالٹی کنٹرول کے نام پر ایچ ای سی کا ایک نمائندہ موجود ہوتا ہے جو یہ دیکھ کر کہ اگر تدریس کا کام اردو میں ہورہا ہے تعلیم اور تدریس کو فوری طور پر غیر معیاری قرار دے دیتا ہے۔ اردو میں لیکچرز کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ جبکہ آئین پاکستان اور خود عدالت عظمیٰ کا فیصلہ پاکستان میں اردو کے سرکاری زبان کے طور پر مکمل نفاذ کا حکم دیتا ہے جس میں اردو زبان کے ذریعہ تعلیم کے طور پر نفاذ بھی شامل ہے۔ 1973 کے آئین کا تقاضا تھا کہ 1988 میں سرکاری زبان کے طور پر اردو کا نفاذ کردیا جاتا کیونکہ دستور پاکستان کے آرٹیکل 251 کے مطابق
’’1۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔ 2۔ شق 1 کے تابع، انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جاسکے گی، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہوجائیں۔ 3۔ قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کرسکے گی‘‘۔ آئین کا یہ آرٹیکل عوام کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی قومی زبان میں تعلیم حاصل کریں اور یہ جان سکیں کہ ان کی جج کیا فیصلہ کرتے ہیں، ان کی نوکر شاہی (بیوروکریسی) کس طرح قواعد و ضوابط کے ساتھ کھیلتی ہے، لیکن عوام کے اس حق کے حصول کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت نے آئین کے اس حکم پر عملدرامد نہیں کیا اور نہ ہی کسی بھی سیاسی جماعت کے انتخابی منشورکا یہ حصہ رہا ہے کہ آئین کے اس آرٹیکل پر عملدرامد کروایا جائے گا۔ حالانکہ اس پر عملدرامد کے لیے کسی آئینی ترمیم کی مزید ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے لحاظ سے مکمل طور پر نافذ کرنا پاکستان کے بیس بائیس کروڑ عوام کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوری اور قانونی استحقاق بھی ہے۔ یقین نہ آئے تو اردو کے حق میں رائے دہی کرا کے دیکھ لیں۔ بیوروکریسی تو یہ نہیں چاہے گی کہ انگریزی زبان سے نجات ملے۔ کیونکہ اردو میں دفتری کارروائی سے ان کی ساری بدعنوانیاں عیاں ہوجائیں گی۔ محض انگریزی زبان کی وجہ سے سرکاری ملازمین میں ایک احساس تفاخر پیدا ہو جاتا ہے۔
ہمارے ایک دوست جنہوں نے ارضیات میں ایم ایس سی کیا تھا لیکن سی ایس ایس کرکے اقتصادیات کی سند رکھے بغیر ڈپٹی آڈیٹر جنرل کی پوسٹ پر پہنچ گئے حالانکہ وہ آڈٹ کی الف بے سے بالکل ہی ناواقف تھے اور وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنے دفتری حریفوں سے انتقام لینا شروع کردیا ہر ایک کے خلاف الٹی سیدھی رپورٹیں جاری کردیں۔ محض انگریزی کے زور پر وہ اس عہدے تک پہنچے۔ انگریزی کا اتنا زعم تھا کہ جب ریٹائرڈ ہوئے تو اسی دعوے پرایک نجی یونیورسٹی میں صحافت کی تعلیم دینے لگے جبکہ صحافت میں ان کا یہ حال تھا کہ ان کے قلم سے کوئی مضمون غلطی سے بھی سرزد نہیں ہوا تھا۔ مجھے تو اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے ذوق انتخاب پر افسوس ہوا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں صرف یہ خوبی تھی کہ وہ دفتری انگریزی کے ماہر تھے جس کی بنا پر ان کو یہ زعم ہے کہ آڈٹ ہو یا اقتصادیات کا علم ہو یا ابلاغیات کی تدریس یہ سب ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ یہی کچھ کھیل ایچ ای سی میں ہو رہا ہے وہاں اعلیٰ تدریس کا معیار انگریزی میں تدریس ہے چاہے طالب علم کی سمجھ میں کچھ آئے نا آئے مگر شرط یہ ہے کہ طالب علموں کو انگریزی زبان میں پڑھا یا جائے۔ جبکہ دنیا بھر کے ماہرین تعلیم کا یہ ماننا ہے معیاری تعلیم مادری ہی زبان میں دی جاسکتی ہے۔ دنیا میں دو زبانیں ایسی ہیں جو ہر شخص بغیر کوئی علم حاصل کیے بول یا سمجھ سکتا ہے۔ ایک مادری زبان اور دوسری اشاروں کی زبان۔ اشاروں کی زبان کو عالمی زبان کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی وہ واحد زبان ہے، جس کو سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور مادری زبان وہ ہے جو انسان شعور سنبھالنے کے بعد اپنے والدین، گھر اور ماحول سے سیکھتا ہے۔
مادری زبان صرف زبان نہیں ہوتی، بلکہ پوری ایک شناخت ہوتی ہے۔ ایک پوری تہذیب، تمدن، ثقافت، جذبات و احساسات کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔ مادری زبان میں خیالات ومعلومات کی ترسیل اور ابلاغ ایک قدرتی اور آسان طریقہ ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کا عمل جو سراسر انسانی ذہن میں تشکیل پاتا ہے، وہ بھی لاشعوری طور پر مادری زبان ہی میں وجود میں آتا ہے۔ انسان خواب بھی مادری زبان ہی میں دیکھتا ہے۔ انسانی ذہن اور تخلیقی عمل میں رابطے کا کام بھی غیر ارادی طور پر مادری زبان میں ہی انجام پاتا ہے۔ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا سب سے بہترین اظہار بھی مادری زبان ہی میں ممکن ہے۔ اپنے خیالات کے فوری اظہار کے لیے بھی مادری زبان ہی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ فہم انسانی کا براہِ راست تعلق بھی ذہن انسانی اور مادری زبان کے رابطے ہی سے ہوتا ہے۔ گویا سیکھنے اور سکھانے کے لیے آسان ترین زبان، مادری زبان ہی ہے، اِس کے سوا کوئی دوسری زبان نہیں ہے۔ تخلیق اور ایجاد کا براہِ راست تعلق بھی مادری زبان سے ہے۔ سائنسی اور فنّی علوم میں نفس ِ مضمون، سائنسی نظریات کی فہم اور ترسیل و ابلاغ کے لیے بہترین ذریعہ مادری زبان ہی مانا جاتا ہے۔ مادری زبان میں قدرتی طور پر یہ وسعت اور گنجائش ہوتی ہے کہ وہ تمام تر جدید عصری علوم بشمول سائنسی علوم کو ان کی اصل اصطلاحات کے ساتھ بغیر کسی ترجمے کے اپنا سکتی ہے اور ان کی ترسیل و ابلاغ کر سکتی ہے۔ مادری زبان انسانی شناخت، تشخص اور کردار سازی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہر وہ زبان جس میں لٹریچر تخلیق پا سکتا ہو، ترسیل علم کے لیے بہترین مانی جاتی ہے۔ جب کہ لٹریچر کا تعلّق بھی مادری زبان سے ہی ہوتا ہے۔
لہٰذا ماہرین ِ تعلیم کی رائے میں ذریعہ تعلیم کے لیے مادری زبان سے بہتر کوئی زبان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقّی یافتہ دنیا میں زیادہ تر ممالک میں تعلیم مادری زبانوں میں دی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو (یونائٹیڈ نیشنز ایجوکیشنل سائنٹفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن) کا یہ کہنا ہے کہ یہ ادارہ مادری زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کیونکہ اس طریقے سے معیار تعلیم میں اضافہ ہوتا ہے، نیز استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی مضبوط ہوتا ہے۔ تحقیقات سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جو بچے ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کرتے ہیں وہ اجنبی زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یونیسکو اور دیگر ادارے اس حقیقت پر زور دیتے رہے ہیں کہ مادری زبان میں حصولِ علم خوداعتمادی اور خودشناسی کے ساتھ ساتھ بچے کی مجموعی نشوونما کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
سائنسی علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں سائنس اپنی مادری زبان میں پڑھانی چاہیے، بصورت دیگر سائنس کا علم صرف طبقہ امراء تک محدود ہوکر رہ جائے گا اور عوام الناس سے اس کا رشتہ منقطع ہوجائے گا۔ اگرچہ ہمارے نظام تعلیم نے اس حد تک ترقی کرلی ہے کہ وہ انجینئرنگ، طب، قانون اور لسانیات میں بین الاقوامی شہرت یافتہ کورسز پیش کرتا ہے، لیکن ہم نے خلافِ عقل اپنے ہی لوگوں کو وہاں تک رسائی سے محروم کردیا ہے۔ پاکستان میں بھی ہم نے اتنے برسوں میں صرف انگریزی میڈیم یونیورسٹیوں اور کالجوں کا ایک چھوٹا نیٹ ورک بنا دیا اور ہماری اپنی زبانیں پیشہ ورانہ تعلیم سے محروم رہیں۔ اس طرح ہم نے اپنے ملک کے پس ماندہ علاقے کے طالب علموں کی اکثریت کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔ اور ہم اس کے خود ذمے دارہیں۔ دنیا کے جو ممالک ترقی یافتہ کہلاتے ہیں وہاں تعلیم و تدریس ان کی اپنی مادری اور قومی زبان میں ہوتی ہے جیسے کہ جاپان کی یونیورسٹیوں کے بیش تر تعلیمی پروگراموں کی تدریس جاپانی زبان میں ہوتی ہے۔ یہی صورت حال چین کی بھی ہے جہاں نیچے سے یونیورسٹی سطح تک ذریعہ ٔ تعلیم وہاں کی قومی زبان ہے۔ یورپ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ فرانس اور جرمنی میں اپنی زبانوں کے تحفظ کا رجحان شدت سے موجود ہے۔ فرانس تو اس حد تک جاپہنچا ہے کہ ’’ذریعہ تدریس صرف فرانسیسی‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جبکہ جرمنی میں اسکولوں میں تعلیم کی زبان بنیادی طور پر صرف جرمن ہے اور ماسٹر پروگرام بھی 50فی صد جرمن زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔ کینیڈا میں لسانی تنوع کی بہت عمدہ تصویر سامنے آتی ہے، اگرچہ زیادہ تر صوبوں میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے، مگر کیوبک میں فرانسیسی بولنے والوں کا غلبہ ہے اور یہاں کے بیش تر اسکولوں میں بلکہ متعدد یونیورسٹیوں میں بھی ذریعہ تعلیم فرانسیسی ہے۔
اس عالمی تناظر کی روشنی میں اگر ہم اپنے ملک کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو بہت ہی افسوسناک صورت حال کا سامنا ہے۔ ہمارے یہاں نہ صرف زیادہ تر پیشہ ورانہ کورسز انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں اور انجینئرنگ، طب اور قانون میں تو صورت حال مزید ناگفتہ بہ ہے، بلکہ ابتدا سے ہی بچوں کو مادری زبان کے بجائے انگریزی میں تعلیم دیتے ہیں اور انہیں اپنی زبان سے ناواقف رکھنے کی گویا شعوری کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انہیں نہ انگریزی آتی ہے اور نہ ہی اردو سے وہ مانوس ہو پاتے ہیں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میں نے کئی نوجوانوں سے تشفی کا مطلب پوچھا تو انہیں اس کا مطلب نہیں معلوم تھا ایسے ہی اردو کے کتنے ہی الفاظ اب اجنبی ہوتے جارہے ہیں یہ تہذیبی خود کشی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟