ڈی جیز پریس کانفرنس

563

غالب شاعر ہو یا غالب قوتیں، ان کی بات ہی الگ ہے۔ غالب کے فن کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور غالبوں کی بات نہ ماننے کا مطلب ’’ارشد شریف‘‘ جیسے تحفے کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ اگر گزشتہ دنوں کی کانفرنس کا نچوڑ نکالا جائے تو مذکورہ اشارات کے علاوہ کچھ اور نکل ہی نہیں سکے گا۔
پاکستان میں لیاقت علی کے دور سے تا دمِ تحریر کیا کیا کچھ نہیں ہوتا آیا۔ ان ساری قیامتوں میں پاکستان کی کن کن قوتوں کا ہاتھ رہا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن ہر مرتبہ جو کچھ سننے کو ملا وہ یہی جملہ تھا کہ ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم ہر حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہیں۔ یہ جملہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ پاکستان میں جو جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ سب کچھ حکومتوں کے ایما پر ہوتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا ہی ہوتا رہا ہوگا لیکن اس ’’ایما‘‘ سازی کے اشارے حکومتوں کو کہاں سے ملتے رہے ہیں۔ کیا 1958 کا پہلا مارشل لا سول حکومت کے ایما پر لگایا گیا، حکومت جنرل یحییٰ کے حوالے کرنے میں ایوب خان کا ’’ایما‘‘ شامل تھا۔ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف آپریشن کس کے ’’ایما‘‘ پر ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے افواجِ پاکستان سے خوشامد کی تھی کہ مجھے کان پکڑ کر حکومت سے باہر نکال دو اور کیونکہ میں اس شرمناک شکست کے بعد جینا ہی نہیں چاہتا اس لیے مجھ مصلوب بھی کر دو۔ یہی گزارشات محمد خان جونیجو، نواز شریف، بے نظیر اور عمران خان بھی کرتے رہے ہوں گے؟۔
یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ ایک جانب تو ڈی جیز یہ فرماتے ہیں کہ ’’سیاستدان رات کے اندھیرے میں آکر ہمارے پاؤں پکڑتے ہیں اور دن کے اُجالے میں ہمیں غدار کہتے ہیں‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے تمام سیاستدان آخر آپ کی دہلیز پر سجدے کرنے پر مجبور کیوں ہیں؟۔ کیا اس میں آپ کا کوئی کردار نہیں؟۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں میر جعفر، میر صادق، سازشی، نیوٹرل، غدار، جانے کیا کیا کہا جاتا ہے ہے۔ ہم سب کچھ ہو سکتے ہیں غدار کسی صورت نہیں ہو سکتے۔ نیز یہ بھی فرمایا گیا کہ چالیس چالیس سال اپنے لہو کی قربانیاں دینے کے بعد ہم غداری کا لیبل لگا کر فوج سے رخصت ہونا کسی صورت گوارہ نہیں کر سکتے۔ بات تو واقعی دل لگتی ہے لیکن آپ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ جتنے بھی پاکستانی ہیں وہ سب کے سب محب ِ وطن ہیں۔ یہ بات آپ اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ آپ اور آپ کا ادارہ شاید اپنے سوا کسی کو بھی ملک کا وفا دار نہیں سمجھتا۔ جس کی مثال بنگالی مسلمانوں، بلکہ تحریک ِ پاکستان کے اصل روحِ روائوں کے خلاف تاریخ کا شدید ترین آپریشن تھا جس کو تاریخ اس لیے فراموش نہیں کر سکے گی کہ جتنی قربانی انہوں نے پاکستان بنانے اور اسلام کی خاطر ہندوؤں، سکھوں اور انگریزوں کے خلاف جدو جہد میں دی اس سے کئی گنا زیادہ مسلمان سپاہ نے صرف اور صرف سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ان سے وصول کی۔ بلوچستان پر مسلسل فوج رکھنا، کے پی کے کے بے شمار علاقوں پر مسلسل فوج کشی کے ذریعے حکومت کرنا، سندھ کو اپنی راج دھانی سمجھنا اور اہل کراچی کو فاطمہ جناح کے دور سے لیکر تا حال پاکستانی ہی نہ سمجھنا جیسے اقدامات کے بعد یہ کہنا کہ ہم سے بھی غلطیاں ضرور ہو سکتی ہیں لیکن ہم غدار نہیں ہو سکتے، کیا نہایت معصومانہ عذر نہیں۔
آپ نہایت یقین سے ایک فرد کو افواج پاکستان کا حریف سمجھنے، کہنے اور قرار دینے کے باوجود بھی اپنے اندر اتنا حوصلہ نہیں پا رہے ہیں کہ اس پر ہاتھ ڈال سکیں جو عوام الناس کے درمیان کھڑا ہو کر آپ کے خلاف ایسی ایسی ہرزہ سرائی کر رہا ہے جو اکثر اوقات کوئی شریف انسان سن بھی نہیں سکتا۔ جو بے نکیل اونٹ کی طرح کھلا پھر رہا ہو، آپ کے خلاف نہایت نا شائستہ زبان استعمال کر ہا ہو اور ہم یہ سمجھ لیں کہ اس میں آپ کی مرضی کا کوئی عمل دخل نہیں؟۔ آپ آج اس کی سرگرمیوں سے سے نالاں ہیں لیکن کیا آپ اس بے یقینی کی صورت ِ حال کی ذمے داریوں سے خود کو بری الذمہ ثابت کر سکیں گے۔ اس کو اقتدار کی کرسی تک کون لیکر آئے تھے۔ کبھی چھے ماہ اور کبھی سال ڈیرھ سال کی مہلتوں کی گزارشات کون کیا کرتے تھے۔ اسے جی ایچ کیو میں بلا کر سارے جرنیلوں کی سلامیاں پیش کرواتے تھے۔ وہ کون تھے جن کے ایما پر بڑے بڑے برج پی ٹی آئی میں شامل کراتے رہے ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات بہر صورت قوم کو چاہئیں۔
بے شک آپ غدار نہیں ہو سکتے اس لیے کہ ہر وہ کام جس کی بنیاد پر کسی کو غدارِ وطن قرار دیا جا سکتا ہے، آپ کی اپنی تعریف میں شامل ہی نہیں۔ آئین و قانون کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مارشل لا پر مارشل لا نافذ کرنا، غیر آئینی طور پر اسمبلیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا، بنا جرم ثابت ہوئے ہزاروں لوگوں کو لا پتا کر دینا، جنرل کو غداری کی بنیاد پر اپنی صفائی کے لیے عدالت میں پیش نہ ہونے دینا، جیسی وہ ساری شقیں جو غداری کے زمرے میں آتی ہیں ان سب کو اپنے لیے حلال بنا لینے کے بعد وہ کون سی دفعہ ہے جس کے تحت آپ کے ادارے کے کسی ایک فرد کو بھی غدار قرار دیا جا سکے؟۔ غدار تو اداروں سے باہر کا ہر فرد ہے۔ جب چاہے اسے مصلوب کر دیا جائے، نہایت بہیمانہ تشدد کرکے ہلاک کر دیا جائے، کسی پر بھی سنگین ترین الزام لگا کر ملک سے باہر رہنے پر مجبور کر دیا جائے، بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے کے جرم کو اتنا سنگین قرار دیا جائے کہ وہ قیامت تک نااہل قرار دے دیا جائے، پاناما لسٹوں میں صرف سویلین، وہ بھی سیاست دانوں کو گرفت میں لیا جائے، کوٹا سسٹم لگا کر اہلیت کا قتل ِ عام کردیا جائے جیسے نہ جانے کتنے ’’آئینی و قانونی‘‘ کام ہیں جن کا اطلاق ہر اس فرد پر ہو سکتا ہے جو ’’اداروں‘‘ سے باہر کا ہو۔ جب غدار اور وفادار کی اسناد آپ ہی کو باٹنی ہیں تو پھر کون گستاخ آپ پر ایسا سنگین الزام لگا سکتا ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)۔