تعلیم، صحت اور انصا ف، سب کے لیے یکسا ں

378

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پچھلے دنوں اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی نہ تو چھے ماہ میں آتی ہے اور نہ ہی جاتی ہے، ملک کی ترقی کے لیے ہمیں چارٹر آف اکانومی پر متفق ہونا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اتحادی حکومت کو مہنگائی سمیت بہت سے مسائل کا سامنا ہے، مہنگائی کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں جسے جانے میں وقت لگے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کیونکہ ٹھیک دو ہفتے قبل ڈار صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ اکتوبر کے آخر تک ڈالر 200 روپے تک آ جائے گا اور ڈالر کی قدر گرنے سے اشیائے ضروریہ اور توانائی کی قیمتوں پر بھی اثر پڑے گا جبکہ مہنگائی کی شرح 12سے 14فی صد تک ہو جائے گی۔
اسحاق ڈار چوتھی بار وزیر ِ خزانہ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں ان کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ اقتدار سے باہر رہ کر بھی وہ درپیش معاشی مسائل کا حل پیش کرتے رہے ہیں مگر جب عملی طور پر کچھ کر دکھانے کا وقت آیا ہے تو وہ مہنگائی کے ستائے عوام سے مزید وقت مانگ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اقتدار کی مسند سے دور بیٹھ کر عوام کو جھوٹے دلاسے کیوں دیے جاتے ہیں ایسے خواب کیوں دکھائے جاتے ہیں جن کی تعبیر ممکن نہ ہو۔ ماضی کی سبھی حکومتوں کا ریکارڈ اس بات کا شاہد ہے کہ بلاتفریق سبھی حکومتوں نے عوامی مسائل کو چند مہینوں چند ہفتوں میں حل کرنے کا خواب دکھایا مگر جب زمامِ کار تھام لی تو یہ باور کرایا جانے لگا کہ مسائل بہت زیادہ ہیں اور حکومت کی استعداد اور وسائل محدود۔ گزشتہ حکومت بھی سو دن میں تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی تھی مگر سوا چار سالہ دورِ اقتدار کے بعد ہاتھ بندھے ہونے اور سسٹم کی تہہ در تہہ خرابی کو موردِ الزام ٹھیرایا جا رہا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اس سسٹم کو ٹھیک کرنا اور دور رس پالیسیاں بنانا کس کا کام ہے؟ عوام سیاسی نمائندوں کو اس لیے منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں کہ وہ مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں گے مگر سیاستدان اقتدار میں آنے کے بعد اپنے وعدوں کے ساتھ ساتھ اپنی ذمے داریوں کو بھی فراموش کر دیتے ہیں اور اصلاحات اور لانگ ٹرم پلاننگ کے بجائے ڈنگ ٹپائو اقدامات سے وقت گزاری کرنے لگتے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ مسائل حل ہونے کے بجائے دوچند ہوتے جاتے ہیں۔ اس کا ایک تلخ نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ عوام امیر اور غریب ہونے کی بناء پر وا ضح طور پر دو حصوں میں بٹ جا تے ہیں۔ غریب عوام اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا جتن کرتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ ان کے بچے سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ امراء کے بچے نجی اداروں تعلیم حاصل کر کے ان اعلیٰ عہدوں پہ براجمان ہو جاتے ہیں، جو غریب بچوں کی دسترس سے اس لیے دور رہ جاتے ہیں کہ انہوں نے سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں نوکری کرنے والا کوئی بھی ہو، بابو، چھوٹا بابو، سرکاری اسکول ٹیچر، پولیس ملازمین، آرمی، سرکاری ڈاکٹر، جج صاحبان، ایم پی اے، ایم این اے، منسٹر، کسی بھی سرکاری ادارے میں نوکری ہو اگر ان کے بچے سرکاری اسکول کالج کے بجائے نجی اسکول کالج میں داخل ہیں تو وہ اپنے ادارے اور ملک کے غدار ہیں ایسے افراد کو سرکاری نوکری سے فارغ کر دینا چاہیے جو ادارے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سرکاری اداروں میں وہی لوگ نوکری کریں جن کے بچے بھی سرکاری اسکول، کالج، یونیورسٹی میں داخل ہے ورنہ سب فارغ۔ یہ قانون سب کے لیے ہو، پھر غریب کے بچے کو بہتر یکساں تعلیم حاصل ہو گی۔
حقیقت میں یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بِنا پر ہمارا ملک شدید معاشی مسائل کا شکار ہے، مہنگائی کی شرح &nbsp 23 فی صد کی بلند ترین سطح پر ہے، ترسیلات ِ زر کا حجم گھٹتا جا رہا ہے اور ڈالر کی قدر میں ایک بار پھر اضافے کا رجحان ہے۔ یقینا یہ مسائل راتوں رات پیدا نہیں ہوئے مگر یہ بھی واضح ہے کہ یہ صورتحال اتحادی حکومت اور اس کے معاشی دماغوں سے مخفی نہیں تھی۔ اس کے باوجود عوام کو یہ دلاسا دیا جا رہا تھا کہ جیسے ہی ڈالر کی بلند پروازی کو کنٹرول کیا جائے گا نصف سے زائد مسائل کا حل نکل آئے گا۔ اس عرصے میں نہ تو ڈالر کی قدر کو کنٹرول کیا جا سکا اور نہ ہی کسی معاشی ریلیف کا بندوبست ہو سکا۔ اب اگر وزیر خزانہ معاشی میثاق کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں تو اس کا آغاز بھی حکومت ہی کو کرنا ہے۔ حکومت ہی کو پہل کرتے ہوئے اتحادیوں سمیت اپوزیشن کو معاشی معاملات کو سیاست سے الگ کرنے کی تجویز پر اعتماد میں لینا ہے۔ گزشتہ چھے ماہ سے میثاقِ معیشت کی بات کی جا رہی ہے مگر عملی طور پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ وزیر خزانہ قوم کو بہلانے کے بجائے حقیقت سے آگاہ کریں اور معاشی معاملات کو سیاست سے الگ کرنے کے لیے زبانی نہیں عملی اقدام کریں۔
بھوک و افلاس کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی سات درجے تنزلی یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس وقت ملک میں اشیائے خورو نوش کی مہنگائی، بیروزگاری اور افلاس کا کیا عالم ہے۔ عالمی ہنگر انڈیکس میں پاکستان کو 121ممالک میں 99ویں نمبر پر رکھا گیا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ رینکنگ 92 تھی۔ رپورٹ میں پاکستان میں غربت کی شرح 26.1 فی صد بتاتے ہوئے اسے سنجیدہ نوعیت کی قرار دیا گیا ہے۔ خطے کے دیگر ممالک پر نظر ڈالی جائے تو نیپال 81 اور بنگلا دیش 84ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں سیلاب کے سبب لاکھوں افراد کے بے گھر اور کروڑوں کے متاثر ہونے سے غربت و افلاس میں اضافے کا خدشہ پہلے سے محسوس کیا جارہا تھا۔ ورلڈ بینک بھی 59 لاکھ افراد کے خط ِ افلاس سے نیچے جانے کے خدشے کا اظہار کر چکا ہے ایسے میں یہ رپورٹ اربابِ اختیار کے لیے چشم کشا ہونی چاہیے اور پالیسی سازی میں ایسے منصوبوں کو نمایاں ترجیح ملنی چاہیے جو لوگوں کو غربت و افلاس اور بھوک کے دلدل سے باہر کھینچ سکیں۔ عالمی امداد پر تکیہ کرنے سے ہمیں روٹی تو شاید میسر آ جائے مگر ہم مچھلی پکڑنے کے ہنر سے نابلد رہیں گے۔ ضرورت اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرتے ہوئے اس بحران کا سامنا کرنے کی ہے۔ اگر ہم زراعت کو اپنی ترجیحات میں اولین جگہ دیں تو بھوک کے علاوہ بیروزگاری کا بھی بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔