سر ِ آدم ہے، ضمیر ِ کن فکاں ہے زندگی

483

ایک صاحب دریا کے کنارے بیٹھے تھے کہ دور سے ایک بوتل بہتی ہوئی کنارے تک آ گئی۔ شاید وہ بوتل توجہ کا مرکز نہ بنتی لیکن ایک تو اس کا عام بوتلوں کے مقابلے میں زیادہ خوش رنگ ہونا اور اس سے بھی حیران کر دینے والی بات اس کا تھوڑی تھوڑی دیر بعد رنگ بدل لینا، کسی کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لینے کا سبب بن سکتا تھا۔ قریب اور تو کوئی نہیں تھا اس لیے انہوں نے اُسے اٹھا لیا اور اپنے گھر لے آئے۔ کھولا ہی تھا کہ گرج دار آواز کے ساتھ بوتل کا جن باہر آ گیا۔ کہانیوں میں تو ایسا پڑھا ہی تھا لیکن اب سب کچھ حقیقت میں ان کے سامنے موجود تھا۔ پہلے تو وہ گھبرائے لیکن جب بوتل سے نکلنے والے جن نے صدا لگائی کہ ’’کیا حکم ہے میرے آقا‘‘ تو انہوں نے ہمت سے کام لیکر کہا کہ کیا جو کچھ میں کہوں گا کروگے، جن نے کہا کہ میرے آقا حکم کریں۔ صاحب نے کہا کہ میرے لیے ایک لاکھ ملین ڈالرز کا انتظام کیا جائے۔ جن نے کہا کہ اتنی رقم کے لیے نجانے مجھے کتنے بینکوں میں ڈاکا ڈالنا پڑے اور کتنے وڈیروں کے بند کمرے کھلوانے پڑیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کوشش میں مَیں پولیس یا محافظوں کی گولیوں کا نشانہ ہی بن جاؤں۔ صاحب نے کہا کہ کیا یہ کام بہت مشکل ہے، جواب ملا ہاں، کوئی آسان سا کام بتائیں۔ کچھ سوچ کر صاحب نے کہا، اچھا ایسا کرو کہ بیوی کو خوش رکھنے کا طریقہ بتا دو۔ یہ سن کر جن فوراً صاحب کے قدموں میں گر گیا اور ہاتھ جوڑ کر کہا کہ آپ نے کتنے ملین ڈالر مانگے تھے۔
پاکستان میں 1969 کے بعد سے اب تک جتنے حکمران بھی آئے وہ سب بوتل کے جن والے ہی ثابت ہوتے رہے۔ جب لانے والے ان کو لے کر آتے ہیں تو ’’کیا حکم ہے میرے آقا‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں لیکن جب ’’ایکس وائی زی‘‘ کو خوش رکھنے کی ترکیبیں بتانے کے لیے کہا جاتا ہے تو قدموں میں پڑتے ہی ہاتھ جوڑ لیتے ہیں۔ لیکن فرمائش در فرمائش پوری کرتے کرتے جونہی ہاتھ پیر سست پڑنے لگتے ہیں یا حرف ِ انکار لب پر سجاتے ہیں، انجام کبھی پھانسی، کبھی عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی اور کبھی نااہلی کی صورت میں سامنے آجا تا ہے۔
مصالحتوں کے اس کردار میں صرف حکمران ہی شامل نہیں ہیں، اہم ترین شعبہ ہائے حکومت و ریاست سے تعلق رکھنے والے اور بے شمار افراد ہیں جو ’’کیا حکم ہے میرے آقا‘‘ کا نعرہ مستانہ بلند کرنے کے بعد زمین سے اٹھ کر آسمان کی بلدیوں تک تو ضرور پہنچ جاتے ہیں لیکن ذرا سا بھی دائیں بائیں ہوجائیں تو کئی کئی فٹ زمین میں دفن کر دیے جاتے ہیں۔ جج ہوں، کسی بھی سیاسی پارٹی کے اہم ستون ہوں، صحافی ہوں، علماء ہوں، شاعر ہوں، ادیب ہوں، سر براہانِ حکومت ہوں یا افواج کے سینئر ترین افسران۔ ان سب کی زندگی کا انحصار صرف اور صرف ’’کیا حکم ہے میرے آقا‘‘ کی مسلسل تعمیل ہی میں مضمر ہوتا ہے، خواہ ان کا تعلق ڈالرز کے حوالے سے ہو یا ’’ایکس وائی زی‘‘ کو خوش رکھنے کی ترکیبوں سے۔ لیکن اس کا کیا جائے کہ ’’کیا حکم ہے میرے آقا‘‘ والا، ڈالرز ہوں یا ترکیبیں، فراہم کرتا کرتا تھک جائے یا فراہم کرتے کرتے کام ہی کیوں نہ آ جائے، ’’ایکس وائی زی‘‘ خوش ہو کر نہیں دیتے بلکہ ’’اور اور‘‘ کی تکرار ہر دم ان کی زبان پر رہتی ہے۔ جہاں اعضاء شل ہوئے وہیں گرفتاری، نااہلیت یا موت کی تلوار سروں پر گرادی جاتی ہے۔
چیز وہی آپ کی ہوتی ہے جو آپ نے خالص اپنی محنت اور ذہانت سے حاصل کی ہو۔ سہاروں کی مدد سے اگر پہاڑ برابر بھی دولت، شہرت، عزت یا حکومت حاصل ہو جائے، اس کی اہمیت رائی سے زیادہ نہیں ہوا کرتی اس لیے کہ جو دینے والے ہوتے ہیں وہ لمحے بھر میں چھین لینا بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ بے شک پاکستانی ’’ایکس وائی زی‘‘ کو خوش رکھنے کی خاطر اپنے آپ کو تباہ و برباد ہی کیوں نہ کر لیں، اس فریب میں کبھی نہیں آئیں کہ آپ اسے خوش رکھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یقین نہ آئے تو 1969 تا 2022 کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو جو بات نچوڑ کے طور پر سامنے آئے گی وہ یہی ہوگی کہ ’’ایکس وائی زی‘‘ کبھی اٹھارہ، کبھی بیس اور کبھی 47 ماہ بعد کان پکڑ کر گھر سے باہر نکال کر کسی اور کیا حکم ہے میرے آقا والے کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی شریف انسان کی دو بیویاں تھیں۔ شوہر کا سلوک دونوں سے اتنا برابری کا اور مثالی تھا کہ عالم اس کے گن گاتا تھا۔ ہوا یہ کہ ان دونوں کا انتقال ایک ہی دن ہوا۔ اس نے ایک ساتھ تدفین کا انتظام کیا۔ دونوں کو ایک ہی وقت میں دو الگ الگ نہلانے والیوں سے غسل دلوایا۔ ایک جیسا کفن، ایک جیسی قبر، ایک ہی وقت میں جنازہ اٹھانے کا پروگرام لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ دروازہ چھوٹا تھا اور اس میں سے بیک وقت دو جنازے نہیں گزارے جا سکتے تھے چنانچہ فوری طور پر معمار کو بلا کر ایک اور دروازہ تیار کروایا گیا اور یوں دونوں جنازہ ایک ہی وقت میں روانہ کیے گئے اور دفنا دیے گئے۔ اسی رات اس نے پہلی بیوی کو خواب میں ناراض پایا تو وجہ دریافت کی۔ جواب ملا آپ نے دوسری بیوی کو نئے جبکہ مجھے پرانے دروازے سے باہر نکالا۔
جب تک پاکستان کے تمام حکمران، جج، صحافی اور ٹی وی اینکرز اپنے اندر سے بولنا، فیصلہ کرنا اور حکومت کرنا نہیں اپنائیں گے، اور اور کی صدائیں آتی رہیں گی اور جیسے ہی اعضا مضمحل ہوں گے، آپ کا کام کسی نہ کسی بہانے اتار دیا جائے گا۔ لہٰذا بقول اقبالؒ
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے، ضمیر کن فکاں ہے زندگی