لو آج ہم بھی صاحب ِ اولاد ہوگئے

423

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہماری عظمیٰ اور عالیہ دونوں ہی اپنے فیصلوں میں یکتا ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہر فیصلے پر پورا پاکستان ان پر تھو تھو کرتا ہو۔ ہوتا یہ ہے فیصلہ سننے کے بعد ملک کے کچھ طبقات کا فشارِ خون بہت بڑھ جاتا ہے لیکن کچھ کا اتنا گرجاتا ہے کہ ڈاکٹر انہیں فوری طور پر ’’پیس میکر‘‘ لگانے کا مشورہ دینے لگتے ہیں۔
عدالتیں کبھی کوئی فیصلہ قانون سے ہٹ کر نہیں دیتیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قانون ہے کیا؟۔ قانون یا تو بندوں کا اپنا تراشیدہ ہوتا ہے یا پھر اللہ کی جانب سے بھیجا ہوا۔ انسانوں کا خود کا بنایا ہوا قانون ہو یا پھر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے بھیجا ہو، اسے دنیا میں نافذ تو انسان ہی کرتے ہیں۔ قانون وہ بھی بہت غلط نہیں ہوتا جو انسانوں کا تراشیدہ ہو اور ان کو تو غلط کہا ہی نہیں جا سکتا جو اللہ رب العزت نے بھیجا ہو مگر بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ دونوں قوانین پر عمل درآمد کرانے کے لیے فرشتے تو زمین پر اُتارے نہیں جاتے اس لیے ہوتا یہ آیا ہے کہ جس کے کاندھوں پر اقتدار کی ذمے داری ڈالی جاتی ہے وہ از خود اپنے آپ کو (نعوذ باللہ) خدا سمجھ بیٹھتا ہے اور اللہ کا خلیفہ بننے کے بجائے ہلاکو اور چنگیز خان بن جاتا ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ انسانوں کے اپنے تراشیدہ اصول و ضوابط بالکل ہی غلط اور مبنی بر ظلم و جبر ہوتے ہیں تو دنیا میں تقریباً نوے فی صد ممالک وہ ہیں جہاں اللہ کے وضع کردہ قوانین کے وجود کا تصور ہی مفقود ہے لیکن وہاں بسنے والے بہت سارے لحاظ سے نہایت مطمئن زندگی گزار رہے ہیں لیکن جہاں کے حکمرانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے اپنے ملک میں اللہ رب العزت کے احکامات مروج ہیں، وہاں نہ تو امن ہے، نہ سکون اور نہ ہی انصاف دور دور تک دکھائی دیتا ہے۔ اس تضاد کا سبب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں (نعوذ باللہ) کوئی سقم ہے یا انسانوں کے تراشیدہ قوانین اللہ تعالیٰ کے دین سے بہتر ہیں بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ اللہ کے نام لیواؤں نے صرف نمائشی طور پر ہر قانون کی شق پر اللہ کے نام کی تختی لگائی ہوئی ہے جبکہ انسانوں کے تراشیدہ قوانین والوں کے ممالک میں قانون ہر پست و بالا کے لیے یکساں ہے۔
پاکستان میں لوگوں کو ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ یہاں رہنماؤں کا فقدان ہے۔ ممکن ہے یہ احساس مبنی بر حقیقت ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ رہنما صرف اور صرف آئین و قانون ہوتا ہے جبکہ رہنما صرف ان کے احترام کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا کرتا۔ آپؐ سے بڑھ کر کون رہنما ہو سکتا تھا تو کیا آپؐ کے وصال کے بعد اسلامی ریاست بکھر گئی تھی۔ ہر آنے والے نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کے رکھا۔ اسی طرح کیا دنیا بھر میں حکمران بدل جانے پر ریاستیں بکھر جایا کرتی ہیں، نہیں، بلکہ جو بھی نیا حکمران تخت نشین ہوتا ہے وہ اپنے بنائے گئے قوانین کے علم کو مضبوطی سے تھام کر کھڑا ہوجاتا ہے اور یوں انسانی زندگی مسلسل رواں دواں چلی آ رہی ہے۔
تباہی کی جانب سفر کا آغاز ہوتا ہی وہاں سے ہے جہاں سے انسان خود کو قانون کہنا شروع کر دیتا ہے اور جو جی میں آتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ انصاف جب تار تار ہونے لگے تو ریاستیں ابتری کا شکار ہونے لگتی ہیں اور پھر حادثات پر حادثات رو نما ہونے لگتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہماری عالیہ و عظمیٰ کیا کر رہی ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم من حیث القوم خود کس جانب جا رہے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہماری عدالتیں ہی کیا ملک کے ہر ادارہ پر جیسے ’’سایہ‘‘ ہے۔ یہ سایہ ایسے ’’جن‘‘ کا ہے جس کو اگر کوئی اُتارنے کی کوشش کرتا ہے تو بہت سارے ’’چیلے‘‘ جن کی حمایت پر اُتر آتے ہیں اور جب کوئی جن کا حمایتی گرفتار ِ بلا ہو کر جنوں کو بھگانے کا وظیفہ شروع کر تا ہے تو پہلے والے احتجاجی اسی جن کے ساتھ مل کر وظیفہ پڑھنے والے پر سوار ہوجاتے ہیں۔ اگر موجودہ سیاسی چپقلش پر غور کیا جائے تو یہی چوہے بلی کا کھیل نظر آئے گا۔ پہلے والے کے سر سے ’’سایہ‘‘ کیا ہٹا کہ اس نے ’’جن‘‘ کے تقرر پر جھگڑا شروع کر دیا اور وہ جو ملک سے باہر بیٹھ کر ’’جن‘‘ کی بخیہ ادھیڑا کرتا تھا، وہ ’’جن‘‘ کا حمایتی بن گیا۔ اگر سیاست میں یہ سب جائز ہے تو صرف عدالتیں کسی قاتل کو بے گناہ ثابت کرنے پر تنقید کی زد میں کیوں؟۔ جب سب ہی اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں تو جج کون سے سے آبِ کوثر پیے ہوئے اور زم زم نہائے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی بھلا غریبوں، یتیموں، بے کسوں اور محض مظلوموں کے پاس ہوتا ہی کیا ہے۔ سب کے خون کو نچوڑ کر بھی اتنا حاصل نہیں ہو سکتا کہ ڈاڑھ گیلی ہو سکے۔ یہ ٹنوں سونا، گھر کے تہہ خانوں میں پونڈوں اور ڈالروں کے ڈھیر رکھنے والے حضرات ہی تو ہوتے ہیں جو دنیا کے امیر ترین ممالک میں کوٹھیاں اور بنگلے بنا کر دیا کرتے ہیں۔
جہاں اپنے ہی بندوں کو گولہ باری اور بموں سے مارا جانا کوئی جنگی جرم نہ سمجھا جاتا ہو، زندہ انسانوں کو دہکتی بھٹیوں میں جھونک دیا جاتا ہو، چار چار سو افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے والے کو عدالت میں پیش نہ کیا جا سکتا ہو، جہاں اسپتالوں میں انسانی لاشیں چیل کووں کے لیے چھت پر پھینک دی جاتی ہوں اور عالیہ و عظمیٰ ہونٹوں پر تالے چڑھائے بیٹھی رہتی ہو وہاں ایک غریب انسان کے قاتل کو بخش دیے جانے پر رونے گانے کی کون پروا کرے گا۔ اکبر الٰہ بادی نے ٹھیک ہی فرمایا تھا کہ
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہو گئے