پاکستان، آفت زدہ ملک

360

یہ امرخاصہ اطمینان بخش ہے کہ وطن ِ عزیز کے سیلاب زدہ علاقوں میں اموات بڑھنے کے خدشات ظاہرکرتے ہوئے اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے پاکستان کے لیے امداد 180 ملین ڈالرز سے بڑھ کر 816 ملین ڈالرز کرنے کی نئی اپیل کردی ہے۔ اقوام متحدہ کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے غربت کی شرح میں 4.5 سے 7.0 فی صد اضافے کا خدشہ ہے۔ 9.9 سے 15.4 ملین لوگ غربت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کی وجہ سے ملک کا بڑا حصہ پانی میں گھرا ہوا ہے، آنے والے کئی سال معیشت کو بہتر کرنے میں لگ جائیں گے، موسم سرما کے باعث صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے، سطح غربت سے نیچے پہلے ہی 8 کروڑ لوگ تھے جن میں اب مزید اضافہ ہوجائے گا۔ پاکستان سیلاب کی وجہ سے شدید معاشی اور انسانی بحران کا شکار ہے۔ موجودہ مالی سال معاشی شرح نمو ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے، سیلاب کے باعث فصلیں متاثر ہوئی ہیں اور خوراک کے عدم تحفظ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ مہنگائی کی وجہ خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ، سیلاب اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔ معمولات زندگی کو برقرار رکھنے والی سرگرمیوں، مارکیٹس تک پہنچنے میں مشکلات اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کے باعث چھوٹے کاروباری ادارے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ دکانوں اور گوداموں میں بارش کا پانی بھر جانے سے کھانے پینے کا موجودہ ذخیرہ خراب ہو گیا ہے، نقصان زدہ اسٹاک میں 23فی صد کے ساتھ زیادہ تر گندم کے ذخائر شامل ہیں اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ متاثرہ اور بے گھر خاندانوں کو بنیادی ڈھانچے کی مکمل تباہی کا سامنا ہے، پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ اشیائے خورو نوش کی دستیابی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
سیلاب کے تباہ کن اور سب سے دور رس اثر ہماری زراعت پر پڑا ہے۔ سیلاب سے اندازاً 20 لاکھ فصلیں اور زمینیں متاثر ہوئی ہیں۔ مستقبل قریب میں معیشت کے تمام شعبوں سے متعلق سپلائی چین بری طرح متاثر ہوں گی۔ اشیاء و خام مال کی نقل و حمل میں تاخیر کے نتیجے میں مصنوعات کی تیاری بھی تاخیر کا شکار ہوگی، جس سے برآمدات میں کمی واقع ہوگی، جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کی قلت سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بیل آئوٹ پیکیج کے باوجود روپیہ دبائو کا شکار رہے گا۔ پہلے ہی قلت کی وجہ سے روزمرہ کی اشیائے خورو نوش کی قیمتوں نے آسمان کو چھونا شروع کردیا تھا۔ چند ہفتے پہلے کی قیمتوں کے مقابلے میں ضروری کھانے پینے کی اشیاء 100فی صد مہنگی ہوچکی ہیں۔ مویشیوں اور بھیڑوں کے نقصان سے ڈیری اور گوشت کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔ مہنگائی جو پہلے ہی 42 فی صد پر جنگل کی آگ کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے، مزید بلندی پر پہنچ جائے گی۔ مہنگائی کے تناسب سے آمدنی میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ طلب میں بڑی کمی ہوگی۔ عام آدمی کی کھپت کی صلاحیت بہت زیادہ دبائو کا شکار ہے، جو سماجی بدامنی کے لیے بارود کا کام کرسکتی ہے۔
عظیم نقصان ایک سوال کو جنم دیتا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کیا کر رہی تھی؟ ان کی بے حسی کے نتیجے میں جنم لینے والے مصائب و آلام دیکھنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اقتصادی بدحالی پہلے ہی معاشی اشاریوں کو روند رہی تھی، عام لوگوں کو متاثر کررہی تھی، اب ان کی بے حسی سے دکھ اور مصیبت دگنی ہوگئی ہے۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 10ارب ڈالر سے زیادہ لگایا جا رہا ہے۔ بینکنگ اور فنانس انڈسٹری کو ان کی مقروض صنعتوں کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانے میں ابھی وقت لگے گا۔ باالفاظ دیگر، مزید چیلنجز سامنے آنے والے ہیں، اگر رعایت نہ دی گئی تو نان پرفارمنگ لون بک (جب بینک سمجھتا ہے کہ قرض واپسی کا امکان نہیں رہا) میں اضافہ ہوگا۔ تعمیر نو کے کام میں سیمنٹ، لوہے اور اسٹیل، سینیٹری ویئر، الیکٹریفیکیشن مصنوعات وغیرہ جیسے مواد کی قلت یا قیمتوں میں اضافے کا مشاہدہ کریں گے۔ وسائل کی کمی ہمیں معاشی طور پر کم از کم آٹھ سے دس سال پیچھے کرسکتی ہے۔ نیا اور مرمت دونوں بنیادی ڈھانچہ راتوں رات تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔
ہمیں سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا اندازہ لگانے میں کم از کم ایک سال لگے گا، جب کہ دوبارہ تعمیر میں مزید وقت لگے گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے، مہنگائی کی شرح کے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ حکومت وقت کو ضروری اور فوری اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ وطن عزیز میں سیلاب زدہ علاقوں کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے، زراعت میں بہتری کے لیے سستے بیج، کھاد اور بجلی کی فراہمی، سیلاب کے پانی کی وجہ سے زمین زیادہ پیداوار دیتی ہیں اگر فوری طور پر کسانوں کو یہ مراعات دی جاتی ہیں تو اگلے سال ہماری فصلیں پیداوار زیادہ دیں گی۔ بلند شرح سود جو معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہے اس کو ختم ہونا چاہیے، پانی کی فراہمی کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے اسے فوری بحال کیا جائے، سیلاب زدہ علاقوں کو ٹیکس فری زونز قرار دینا چاہیے، اور ان علاقوں کے لیے بجلی کے ٹیرف کو کم کر دینا چاہیے، ملکی اور غیر ملکی امداد سے ادویات اور خوراک کا فوری انتظام ضروری ہے، چھوٹے کسانوں کو جن کی زمین 30ایکڑ سے کم ہے۔ ان کے قرضے معاف کرنے چاہئیں اور حکومت کے ساتھ مل کر سب اسٹیک ہولڈرز کو دنیا کی توجہ ہمارے ملک پر آئے ہوئے اس بھیانک ڈیزاسٹر کی طرف کرانی چاہیے تاکہ پاکستان میں جلد از جلد ہنگامی بنیادوں پر امداد مہیا کی جائے۔ سیلاب زدہ علاقوں کے لیے خام مال پر ٹیکس کو ختم کیا جائے۔ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے، لیکن ہم تیار نہیں ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اب یہاں رہیں گے۔ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے۔ ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے سرفہرست 10ممالک میں شامل ہیں، اگرچہ ہم کاربن کے اخراج میں 2فی صد سے بھی کم حصہ ڈالتے ہیں، لیکن اس کے منفی نتائج کے لحاظ سے اس کا نقصان ہم پر زیادہ ہے، ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔