کھیل کے میدانوں سے خوشخبریاں

370

پاکستان میں کھیل کافی عرصے سے زوال کی شکار ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران پاکستان کسی بھی کھیل میں کوئی بڑا مقام حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان میں بدامنی کو جواز بنا کر غیر ملکی ٹیمیں اور کھلاڑی یہاں آنے سے مسلسل دامن بچاتے رہے ہیں۔ پاکستان کو پچھلے بیس سال کے دوران کسی بھی بڑے ایونٹ کی میزبانی کا شرف بھی حاصل نہیں ہوا جس کا اثر ہمارے کھیل کے میدانوں پر بھی پڑتا رہا ہے کیونکہ جب تک ملک میں غیر ملکی کھلاڑیوں کی آمد اور یہاں اپنے جوہر دکھانے کے مواقع پیدا نہیں ہوں گے تب تک مقامی کھلاڑیوں کو بھی اپنی صلاحیتیں نکھارنے کے مواقع دستیاب نہیں ہوںگے۔ ماضی میں پاکستان ہاکی، کرکٹ اور اسکواش کے علاوہ کشتی رانی، باکسنگ، ریسلنگ اور اسنوکر سمیت مختلف کھیلوں میں عالمی اور ایشیائی سطح پر اونچے مقام کا حامل رہا ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے کان کھیل کے میدانوں سے کوئی بڑی خوشخبری سننے کو ترس گئے ہیں حالانکہ اس عرصے میں اگر ایک طرف افغانستان اور بنگلادیش جیسے کمزور ممالک کرکٹ کے میدان میں کامیابی کے کئی جھنڈے گاڑ چکے ہیں تو دوسری طرف بعض دیگر گمنام اور چھوٹے ممالک بھی کئی کھیلوں میں عالمی سطح پر اپنے ممالک کے نام روشن کررہے ہیں۔
کھیلوں کو ماضی میں محض جسمانی مشقت اور تندرستی کی ضرورت کی تحت کھیلا جاتا تھا لیکن جدید دور میں کھیل باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ کھیل نہ صرف کسی بھی ملک کا عالمی سطح پر تعارف اور اس کے سافٹ امیج کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ جن ممالک میں کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں وہ ممالک زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی آگے نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ لاغر اور کمزور قومیں نہ تو دنیا میں سبقت کی جنگ میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکتی ہیں اور نہ ہی ایسی قومیں اپنے وجود کو تا دیر قائم رکھنے کی اہل ہوتی ہیں۔ پاکستان کو ویسے تو قدرت نے زندگی کی ہر نعمت سے مالامال کر رکھا ہے لیکن کھیلوں پر معمولی توجہ سے ہم دنیا بھر میں ایک بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ دراصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں کھیلوں کو نہ صرف ہر سطح پر سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے بلکہ اس کے لیے ہر سطح پر مناسب منصوبہ بندی اور وسائل کی فراہمی بھی اشد ضروری ہے لیکن بد قسمتی ہے ہم نے آج تک کھیلوں کے فروغ اور یہاں موجود ٹیلنٹ کو تلاش کرنے پر توجہ نہیں دی حالانکہ پاکستان میں ہر کھیل کا پوٹینشل موجود ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ یہ بات خوش آئند ہے کہ گزشتہ دو چار دنوں سے کھیل کے مختلف میدانوں سے پاکستان کی فتوحات کی خوشخبریاں سننے کو مل رہی ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی خبر پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کا بنگلادیش کے شہر سلہٹ میں کھیلے جانے والے ایشیا کپ کے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستانی ٹیم سابق ایشین چمپئن اور میزبان بنگلادیش کے علاوہ اپنے روایتی حریف بھارت کی ٹیم کو بھی ہرا چکی ہے اگر پاکستان سری لنکا کو سیمی فائنل میں شکست دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پاکستان کے ایشین چمپئن بننے کے امکانات اور بھی روشنی ہوجائیں گے۔ اسی طرح نیوزی لینڈ میں جاری سہ فریقی ٹی 20 ٹورنامنٹ جس میں نیوزی لینڈکے علاوہ پاکستان اور بنگلادیش کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں اس ٹورنامنٹ کے پہلے دونوں میچوں میں گرین شرٹس بنگلا دیش اور نیوزی لینڈ کو شکست سے دو چار کر چکی ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق اس سال دسمبر میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے اپنے دورہ پاکستان کی توثیق کر دی ہے جس کے دوران کیوی ٹیم پاکستان کے خلاف دو ٹیسٹ، آٹھ ون ڈے اور پانچ ٹی 20 میچز کھیلے گی۔ یہ دورہ دو مراحل پر مشتمل ہوگا پہلا مرحلہ 27 دسمبر تا 15 جنوری جبکہ دوسرا مرحلہ 13 اپریل سے 7 مئی تک کے میچوں پر مشتمل ہوگا۔ اس دورے میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کراچی ملتان، لاہور کے علاوہ راولپنڈی میں میچز کھیلے گی جس سے اگر ایک طرف پاکستانی شائقین کو کافی عرصے بعد اپنی سرزمین پر بین الاقوامی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی تو دوسرے جانب اس سے پاکستان میں کرکٹ سمیت دیگر کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد کی راہیںبھی ہموار ہوںگی۔
پاکستان میں کھیلوں کی دگرگوں صورتحال کے تناظر میں یہ اطلاع بھی دنیائے کھیل کے شائقین اور خاص کر نوجوان کھلاڑیوں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے پی ٹی آئی دور حکومت میں شعبہ جاتی کھیلوں پر لگنے والی پابندی بھی ختم کرکے ان کھیلوں کو ماضی کی طرح ایک بار پھر بحال کر دیا ہے جس کا کھیل کے شائقین اور نوجوان کھلاڑیوں کی جانب سے زبردست خیر مقدم کیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے شعبہ جاتی کھیلوں کو تو ختم کر دیا تھا لیکن وہ ان کے متبادل کوئی نظام نہیں دے سکے تھی جس سے نوجوان کھیلاڑیوں کی صلاحیت ضائع ہورہی تھی لہٰذا اب توقع ہے کہ ان کھیلوں کی بحالی سے نہ صر ف نوجوان کھلاڑیوں کو مختلف محکموں کی ٹیموں کی جانب سے کھیلتے ہوئے اپنے جوہر دکھانے کے مواقع ملیںگے بلکہ اس سے نوجوان کھلاڑیوں کے روزگار اور مالی مسائل کے حل میں بھی کافی حدتک مدد ملے گی۔