کراچی کی غیر معیاری سڑکیں اور ڈاکٹروں کی تشویش

511

کراچی کی سڑکیں تاحال بدترین حالت میں ہیں، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے بھی کہا ہے کہ ’’سندھ کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے‘‘ سندھ حکومت نے بہت زیادہ شور مچنے پر کئی جگہ استرکاری کی ہے، لیکن ان کا معیار بہت ہی خراب اور ناقص ہے اور وہ دوبارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہیں اور جو بچ جائیں گی سردی کی بارش میں ختم ہوجائیں گی کیونکہ برسوں سے ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔ کراچی کے شہریوں کے لیے مشکل یہ ہے کہ ان مخدوش اور خستہ حال سڑکوں کے باعث جہاں منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے وہیں اس سفر کے نتیجے میں تھکن، کمر اور مہروں کی درد کی شکایات بھی عام اور مریضوں میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے۔ حالیہ دنوں میں کراچی پریس کلب میں ایک میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا، جس میں ماہرین امراض درد نے جب صحافیوں کا طبی معائنہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ 90 فی صد صحافی کمر اور مہروں کے درد می مبتلا ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران کمر اور مہروں کے درد کے امراض میں 30 فی صد تک اضافہ ہواہے۔ ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’خراب سڑکوں کی وجہ سے ہر عمر کے افراد متاثر ہو رہے ہیں اور ان افراد میں بچے بھی شامل ہیں۔ اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پہلے خواتین جوڑوں کے درد کا زیادہ شکار ہوتی تھیں لیکن اب مرد خصوصاً نوجوانوں کی بڑی تعداد اسپتال آرہی ہے‘‘۔ اس دوران ڈاکٹروں نے اپنی سادگی میں یہ تجویز بھی دی کہ ’’سندھ حکومت کو چاہیے کہ جیسے دنیا بھر میں سڑکیں تعمیر کرنے والے ٹھیکیداروں کے نام کی تختی لگائی جاتی ہے ایسے ہی کراچی میں بھی ٹھیکیداروں کی تختیاں لگائی جائیں تاکہ شہریوں کو علم ہو اور ناقص میٹریل استعمال کرنے والے ٹھیکیداروں پر پابندی لگائی جائے‘‘۔ اصل بات یہ ہے کہ سندھ حکومت کے ہر ہر کام میں نااہلی اور کرپشن موجود ہے، ہمارے یہاں ٹھیکیداروں کے ساتھ اس کی متعلقہ وزارت اور محکموں کے لوگوں کے ناموں کی تختیاں لگانے کی ضرورت ہے، دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں اول تو پورا بجٹ استعمال ہی نہیں ہوتا اور جو ہوتا ہے وہ اس میں صرف کنٹریکٹرز کی چوری اور ناقص میٹریل کا استعمال زیادہ ہوتا ہے اور اس عمل میں صرف ان کی بدنیتی نہیں بلکہ ایک پورا نظام بنا ہوا ہے جس میں سب کا حصہ بندھا ہوا ہے، ورنہ کیسے ممکن ہے کہ سڑکیں غیر معیاری بنیں اور متعلقہ اداروں کو معلوم ہی نہ ہو، اس لیے ضرورت جہاں اس امرکی ہے کہ جہاں شہری ڈاکٹروں کے مشوروں کے مطابق ورزش کو معمول بنائیں کیونکہ ورزش آپ کے جوڑوں اور پٹھوں کو مضبوط اور توانا رکھتی ہے وہاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکوں اور ان کی خستہ حالی کو بھی ختم کرنے اور معیاری سڑکوں کی تعمیر کی ضرورت ہے، اور سڑکوں کی تعمیر کے ضمن میں ماہرین اس طرف بھی متوجہ کرتے ہیں کہ سڑکوں کی تعمیر میں پتّھر کی روڑی کوٹ کر اس پر کارپیٹنگ کریں تو اس سے سڑک مضبوطی رہتی ہے، کیوں کہ ڈامر کے نیچے پانی جانے سے پتھر کی روڑی نہیں پھولتی اور ماضی میں اچھی سڑکیں وہی ہوتیں تھیں جن پر پتھر اور روڑی پر رولر کے بعد کارپیٹنگ کی جاتی تھی، آپ اگر کرش میں بجری کے بجائے مٹی ملا کر سڑک بنائیں گے تو سڑکوں کا حال وہی ہوگا جو ہم دیکھ رہے ہیں، موجودہ سندھ حکومت سے اس ضمن میں توقع تو عبث ہے لیکن 23اکتوبر کو اگر بلدیاتی انتخابات ہوجاتے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ نومنتخب شہری حکومت اس ضمن خصوصی توجہ دے اور کراچی کے شہریوں کو کچھ تو ریلیف مل سکے۔