بھارت سے مذاکرات؟

308

وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام کی خواہش کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان خطے کے امن اور سرحد کے دونوں اطراف بسنے والے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے بھارت کے ساتھ بامقصد اور با معنی بات چیت کے لیے تیار ہے، اب یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے ضروری اقدامات کرے، دنیا بھارت کے جمہوری چہرے کے پیچھے دیکھے، بھارت اپنی اقلیتوں، ہمسایوں، خطے کے امن اور خود اپنے لیے خطرہ بن چکا ہے، خطے کے ممالک کو امن اور ترقی کے لیے مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وسائل مختص کرنا ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ایشیا میں روابط کے فروغ اور اعتماد سازی کے اقدامات کے حوالے سے سیکا کے چھٹے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
کشمیر پر جب سے بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا ہے، کشمیری مسلمان ظلم و ستم کے کئی ادوار سے گزر چکے ہیں۔ انہیں مسلسل بھارتی حکومت اور مسلح افواج کے ظالمانہ اقدامات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں، مگر آفرین ہے کشمیری مسلمانوں پر کہ ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی، ہزاروں نوجوانوںکی عقوبت خانوں میں منتقلی، مائوں بہنوں کی عصمتوں کی پامالی، اور اب تین سال سے زیادہ عرصے سے لاک ڈائون اور کرفیو وغیرہ کی ناقابل برداشت پابندیوں کے باوجود انہوں نے کسی بھی مرحلے پر جذبہ حریت کو ماند ہونے دیا ہے اور نہ تحریک آزادی کو سرد پڑنے دیا ہے۔ تاہم ایک وقت تھا کہ کشمیری مسلمانوں کی اس جدوجہد آزادی کو کم و بیش تمام مسلم اور حریت پسند اقوام کی حمایت حاصل تھی، مگر بدقسمتی سے گزشتہ تین عشروں کے دوران ہمیں ایسے حکمران نصیب ہوئے، کشمیر کی آزادی جن کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی، اور انہوں نے بانی پاکستان کے اس فرمان کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ کو فراموش کر کے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نت نئے فارمولے پیش کر کے جدوجہد آزادی کو شدید نقصان پہنچایا، اور کشمیری مسلمانوں میں بھی پاکستان سے متعلق مایوسی کے جذبات کو فروغ حاصل ہوا۔ اللہ تعالیٰ سید علی گیلانیؒ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے جنہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نہایت حکمت و بصیرت اور دور اندیشی سے حالات کا مقابلہ کیا اور مقبوضہ کشمیر کے عوام میں آزادی کے لیے تڑپ میں کمی نہیں آنے دی، البتہ ہمارے حکمرانوں کی سرد مہری اور لاتعلقی، اور دوسری جانب بھارتی حکومت کی جارحانہ حکمت عملی و سفارت کاری کا نتیجہ اس صورت میں سامنے آیا کہ آج اکثر مسلمان ممالک اور آزادی پسند غیر مسلم ممالک بھی اپنا موقف تبدیل کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا منشور کشمیر کے عوام کو مسلح جدوجہد آزادی کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ آزاد خطے کے لوگوں کو اپنے مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کا حق بھی حاصل ہے، مگر اسے ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہی کہا جائے گا کہ آج دنیا آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مدد کو مداخلت قرار دیتی ہے، بلکہ اسی پالیسی کے سبب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی جکڑ بندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے عالمی دبائو کے تحت بھارت کو کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ آہنی باڑھ لگانے کا موقع بھی فراہم کیا، مگر اس سب کے باوجود پاکستان پر الزامات اور دبائو کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ بھارت نے صورت حال کو اپنے حق میں ساز گار بنانے کے بعد 5 اگست 2019ء کو اپنے آئین کی دفعات 370 اور 35 اے ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا ہے اور اب مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی واضح اکثریت کو ختم کرنے کے لیے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ 5 اگست 2019 ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں عوام کو ہر طرح کے بنیادی حقوق سے محروم کر کے کرفیو اور لاک ڈائون کے ذریعے ان کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے، مگر اس تمام ظلم و ستم کے باوجود ترکی اور ایک آدھ دوسرے ملک کے سوا کسی جانب سے صدائے احتجاج بلند کی گئی ہے نہ ہی بھارتی اقدامات کی مذمت میں کوئی آواز سنائی دی ہے، جب کہ بہت سے اہم مسلمان ممالک بھارت سے تجارت اور دوستانہ تعلقات تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔ ظاہر ہے اسے ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ اس افسوسناک صورت حال میں گزشتہ برس پاکستان کے ارباب حل و عقد نے بھی اپنی خارجہ حکمت عملی پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا، چنانچہ ٹھوس سمعی و بصری شواہد پر مشتمل ایک یادداشت تیار کر کے اس کی مؤثر تشہیر اور متعلقہ حلقوں تک پہنچانے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ 131 صفحات پر مشتمل اس یادداشت (ڈوزیئر) میں بھارت کے جنگی جرائم اور مسلمہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نمایاں کیا گیا۔ یہ یادداشت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، رکن ممالک کے مستقل مندوبین، انسانی حقوق کونسل، برطانوی ایوان نمائندگان، یورپی پارلیمان، امریکی کانگریس اور متعلقہ کمیٹیوں، اسلامی تعاون تنظیم اور ستر سے زائد ممالک کے سفارتی مشنر تک پہنچائی گئی۔ دفتر خارجہ نے پاکستان میں موجود غیر ملکی سفیروں، ہائی کمشنرز اور دیگر سفارت کاروں کو اس ضمن میں بریفنگ بھی دی۔ دفتر خارجہ کی جانب سے اس سنجیدہ اور جارحانہ سفارت کاری کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے، اور مختلف عالمی اداروں اور کئی ممالک کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے دبائو میں اضافہ ہوا۔
ضرورت تھی کہ بھارت پر بین الاقوامی برادری کے اس دبائو میں مزید اضافہ کیا جاتااور اس ضمن میں کوششوں کو مزید مضبوط اور مربوط بنایا جاتا، مگر ہمارے سیاسی قائدین اور حکومتی عمائدین باہم ایسے دست و گریباں ہوئے کہ ملک کی شاہ رگ کے نازک معاملہ کو یکسر فراموش کر دیا گیا۔ اب وزیر اعظم شہباز شریف نے یک طرفہ طور پر مذاکرات کی دعوت دے دی ہے حالانکہ سابق حکومت نے بھارت کے 5 اگست 2019ء کے اقدام کے بعد اس سے سفارتی تعلقات کم تر درجہ تک محدود کر دیے تھا، اس کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بند کر دی تھی اور دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کی بحالی کے لیے 6 اگست کے اقدام کی واپسی کو پیشگی شرط قرار دیا تھا جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی مذاکرات کی پیشکش میں اس شرط کا کہیں ذکر نہیں۔ ملک میں تبدیلی اقتدار کے بعد موجودہ حکومت کی طرف سے ایک سے زائد بار بھارت سے تجارت کی بحالی کی خواہش بھی سامنے آ چکی ہے وزیر اعظم نے اگرچہ نتیجہ خیز اور با مقصد مذاکرات کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات کو بھارت کی ذمہ داری قرار دینے کی گول مول بات کی ہے مگر اس سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں خصوصاً ماضی کے ادوار اقتدار میں شریف خاندان کی طرف سے بھارت کے حکمرانوں سے قربت کی کوششوں کے پس منظر میں ان شکوک کو مزید تقویت ملتی ہے۔ 1999ء میں میاں نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم واجپائی کو واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستان مدعو کر کے غیر معمولی پروٹوکول دیا اور اس پر احتجاج کرنے والے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو بے پناہ تشدداور قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا گیا پھر وزارت عظمیٰ کے تیسرے دور میں بھی میاں نواز شریف نے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی نواسی کی شادی کے موقع پر خصوصی طور پر جاتی عمرہ آنے کی دعوت دی۔ اسی طرز عمل کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ شریف خاندان کے کاروباری اور مالی مفادات بھارت سے وابستہ ہیں جن کی تائید و تصدیق حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک آڈیو لیک سے بھی ہوئی جس میں مریم نواز کے وزیر اعظم سے تجارت پر پابندی کے باوجود اپنے داماد کے لیے مشینری کی بھارت سے درآمد کی سفارش اور اصرار کا تذکرہ ہے۔ وزیر اعظم کی پیشکش نیک نیتی پر بھی مبنی ہو تو یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہئے کہ ماضی میں دونوں ملکوں کے مابین ایسے مذاکرات کبھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکے اوربھارتی حکمرانوں نے انہیں ہمیشہ وقت ٹالنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ وزیر اعظم کی خطے میں امن اور خوشحالی کی خواہش یقینا مثبت سوچ کی عکاس ہے مگر اس کی خاطر پاکستان کی شہ رگ کی قربانی بہرحال نہیں دی جا سکتی…!!!