بغداد: ہر بار نئی طرح سے اُجڑا

367

عباسی حکومت کے آخری دور میں ایک وقت وہ آیا جب مسلمانوں کے دارالخلافہ بغداد میں ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دینی مسئلے پر مناظرہ ہونے لگا۔ جلد ہی وہ وقت بھی آ گیا جب ایک ساتھ ایک ہی دن بغداد کے الگ الگ چوراہوں پر الگ الگ مناظرے ہو رہے تھے۔ پہلا مناظرہ اس بات پر تھا کہ ایک وقت میں سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟ دوسرا مناظرہ اس اہم موضوع پر تھا کہ کوا حلال ہے یا حرام؟ تیسرے مناظرے میں یہ تکرار چل رہی تھی کہ مسواک کا شرعی سائز کتنا ہونا چاہیے؟ ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ایک بالشت سے کم نہیں ہونا چاہیے اور دوسرے گروہ کا یہ ماننا تھا کہ ایک بالشت سے چھوٹی مسواک بھی جائز ہے۔ ابھی یہ مناظرے چل رہے تھے کہ ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری فوج بغداد کی گلیوں میں داخل ہو گئی اور سب کچھ تہس نہس کر گئی۔ مسواک کی حرمت بچانے والے لوگ خود ہی بوٹی بوٹی ہو گئے۔ سوئی کی نوک پر فرشتے گننے والوں کی کھوپڑیوں کے مینار بن گئے، جنہیں گننا بھی ممکن نہ تھا۔ کوے کے گوشت پر بحث کرنے والوں کے مردہ جسم کوے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ آج ہلاکو خان کو بغداد تباہ کیے سیکڑوں برس ہو گئے مگر قسم لے لیجیے جو مسلمانوں نے تاریخ سے رتی برابر بھی سبق لیا ہو۔ آج ہم مسلمان پھر ویسے ہی مناظرے سوشل میڈیا پر یا اپنی محفلوں، جلسوں اور مسجدوں کے منبر سے کر رہے ہیں کہ ڈاڑھی کی لمبائی کتنی ہونی چاہیے یا پھر پاجامہ کی لمبائی ٹخنے سے کتنی نیچے یا کتنی اوپر شرعی اعتبار سے ہونی چاہیے۔ مردہ سن سکتا ہے یا نہیں؟ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا جائز ہے کہ نہیں۔
قوالی اور مشاعرے کرنا ہمارے مذہبی فرائض میں شامل ہونے لگے۔ فرقے اور مسلک کے ہمارے جھنڈا بردار صرف اور صرف اپنے اپنے فرقوں کو جنت میں لے جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور دورِ حاضر کا ہلاکو خان ایک ایک کر کے مسلم ملکوں کو نیست و نابود کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ افغانستان، لیبیا، عراق کے بعد شامی بچوں کی کٹی پھٹی لاشوں کی گنتی کرنے والا کوئی نہیں ہے، بے گناہوں کی کھوپڑیوں کے مینار پھر بنائے جا رہے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کی حالت ِ زار ایسی ہے کہ زار و قطار رو کر بھی دل ہلکا نہیں ہوتا۔ آدمؑ کی نسل کے نوجوانوں، بوڑھے اور بزرگوں کی لاشوں کو کوے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ اور حوا کی بیٹیاں اپنی عصمت چھپانے امت کی چادر کا کونا تلاش کر رہی ہیں۔ جی ہاں!! اور ہم خاموشی سے اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے ہیں، یاد رکھیں! جنگ میں دشمن شیعہ، سنی، دیوبندی، پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ اور کشمیری نہیں دیکھے گا۔ اب بھی وقت ہے ایک ہونے کا۔ نہیں تو مشترکہ تباہی میں ہم ایک دوسرے کے ساتھی ضرور بنیں گے۔
خود ہماری حالت کیا ہے؟ یہاںسا ٹھ فی صد سے زیادہ ہم وطن غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ مگر یہ کہ وہ اپنے سیاسی رہنمائوں جن کی کتے بلیوں کی خوراک بھی مغرب سے درآمد کی جاتی ہے کی خاطر سردھڑ کی بازی لگانے کو یوں تیار بیٹھے ہیں کہ جیسے ہی کوئی گھیرائو جلائو کال ملے تو بھوک سے بلکتے بیوی بچوں کو چھوڑ کر ان رہنمائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سب سے پہلے سامنا کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے وہ گھر سے چل پڑیں گے۔ انعام کے طور پر ان رہنمائوں کے ساتھ سیلفی بنوا کر اترانے کا شرف حاصل کریں گے۔ ملک کے بھوکے ننگے عوام کے مقابلے میں حاصل کردہ سرکاری مراعات پر روشنی ڈالنے کی غرض سے مثال کے طو ر پر بقول اور بشکریہ ایک انتہائی مدبر کالم نگار اور تجزیہ کار، ذرا اسٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر کی مراعات ہی دیکھ لیں۔ گورنر کی ماہانہ تنخواہ 25 لاکھ روپے ہے۔ اس تنخواہ میں ہر سال دس فی صد اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے سال یہ تنخواہ ساڑھے ستائیس لاکھ روپے ہوجائے گی۔ تیسرے سال تیس لاکھ پچیس ہزار روپے ہوجائے گی۔ فرنشڈ گھر دیا جائے گا۔ اس کی مرمت بھی سرکاری ہوگی۔ گھر نہ دینے کی صورت میں اس کے کرائے کے برابر رقم ہر ماہ دی جائے گی۔ دو گاڑیاں بھی دی گئی ہیں۔ ایک 1800 سی سی اور دوسری 1600سی سی۔ دونوں گاڑیوں کے لیے دو ڈرائیور بھی دیے گئے ہیں۔ ہر گاڑی کے لیے 600 لٹر پٹرول دیا جانا ہے۔ بچوں کی پڑھائی کا بھی 75 فی صد دیا جانا ہے۔ بجلی، گیس، پانی مفت ہوگا۔ اگر جنریٹر چلانا پڑا تو اس کے ایندھن کا خرچ بھی سرکار کے ذمے ہوگا۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، لینڈ لائن سب مفت ہوںگے۔ گورنر صاحب گھر کے لیے چار ملازم رکھ سکتے ہیں۔ اٹھارہ ہزار روپے تنخواہ فی ملازم سرکار دے گی۔ چوبیس گھنٹے سیکورٹی گارڈکی سروس مفت مہیا کی جائے گی۔ کلب کی رکنیت فیس سرکار دے گی۔ اس کے علاوہ ماہانہ بل بھی سرکار ادا کرے گی۔ یعنی کلب میں ان کے اہل خانہ کے کھانے پینے، کھیل، تیراکی وغیرہ کے اخراجات سرکار ادا کرے گی۔ حکومت نے یہاں وضاحت نہیں کی کہ ان ماہانہ اخراجات کی کوئی حد ہوگی۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ اخراجات غیرمحدود ہوں گے۔ گورنر اور اہل خانہ کو مفت علاج کی سہولت میسر ہوگی۔ گورنر صاحب ہر ماہ تین اضافی چھٹیوں کے اہل ہوں گے۔ ہر سال ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر پچیس لاکھ رروپے گریجویٹی کے طور پر ادا کیے جائیں گے۔ ٹرانسفر کی صورت میں تمام اہل خانہ سمیت ہوائی ٹکٹ دیا جائے گا اور سامان کی منتقلی کا خرچ بھی۔ تین سالہ ملازمت کے خاتمے پر چھے ماہ کی اضافی تنخواہ ملے گی۔ یعنی ہر سال دس فی صد بڑھنے کے بعد تیسرے سال تنخواہ تیس لاکھ پچیس ہزار ہوگی۔ اس حساب سے چھے ماہ کی تنخواہ ایک کروڑ اکیاسی لاکھ پچاس ہزار روپے بنے گی۔ یہ رقم تین سالہ ملازمت کے اختتام پر دی جائے گی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایسی مراعات ملتی رہیں گی۔ جو اسٹیٹ بینک کا بورڈ منظور کرے گا۔ یاد رہے کہ بورڈ کے چیئرمین خود گورنر صاحب ہیں۔
توقارئین کرام، کیا ہم کبھی بغداد کے بار بار اجڑنے سے نہ سہی، اپنی ہی ہر روز مٹی پلید ہونے سے کبھی کچھ عبرت حاصل کر پائیں گے؟ لگتا ہے کبھی نہیں۔
ہمارے عوام یوں ہی حالات کی چکی میں پستے رہیں گے، اور ہمارے حکمران اس سب سے لاتعلق اور بے نیاز رہیں گے۔ مگر ایک روز تاریخ اپنا صفحہ ضرور پلٹے گی۔ اس روز انہیں یاد آئے گا کہ کسی نے کہا تھا:
ذہن میں عظمت اجداد کے قصے لے کر
اپنے تاریک گھروندوں کے خلا میں کھو جائو
مرمریں خوابوں کی پریوں سے لپٹ کر سو جائو
ابر پاروں پہ چلو، چاند ستاروں میں اُڑو
یہی اجداد سے ورثہ میں ملا ہے تم کو
آگے برسانے لگے اجنبی توپوں کے دہن
خواب گاہوں کی چھتیں گرنے لگیں
اپنے بستر سے اُٹھو
نئے آقائوں کی تعظیم کرو
اور… پھر اپنے گھروندوں کے خلا میں کھو جائو
تم بہت دیر… بہت دیر تلک سوئے رہے