کشمیری رہنما الطاف شاہ کی شہادت

493

مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے رہنما کشمیریوں کی مزاحمت کی علامت سید علی گیلانی کے بڑے داماد الطاف احمد شاہ بھی بھارت کی جیل میں مظالم برداشت کرتے ہوئے انتقال کرگئے۔ بھارت کی حکومت کے غیر انسانی رویے اور دورانِ حراست موت پر حکومت پاکستان کی جانب سے احتجاج کیا گیا ہے۔ پاکستان نے حریت رہنما الطاف احمد شاہ کی الم ناک شہادت کے واقعے پر بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کرویا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ حریت رہنما الطاف احمد شاہ کو سید علی گیلانی کا داماد، کشمیریوں کا حقیقی نمائندہ ہونے کی سزا دی گئی ہے۔ الطاف احمد شاہ گزشتہ پانچ سال سے بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید تھے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ بھارت نے حریت رہنما کی بگڑتی ہوئی صحت پر حکومت پاکستان کے تحفظات پر بھی دھیان نہیں دیا۔ حریت رہنما کی صاحبزادی کے خط پر بھی بھارتی وزیراعظم سمیت بھارتی حکومت نے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا۔ الطاف احمد شاہ کی صحت کی خرابی کے بارے میں آگاہ کرنے کے باوجود بھارتی حکومت لاتعلق رہی۔ گردوں کے کینسر میں مبتلا حریت رہنما کے اسپتال میں داخلے، تشخیصی ٹیسٹوں میں غیر معمولی تاخیر اور اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت نہ دینا زیادہ دل دہلا دینے والی حقیقت ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ بھارت نے انسانی بنیادوں پر الطاف شاہ کی ضمانت کی درخواست کی عدالتی سماعت میں بھی جان بوجھ کر تاخیر کی۔ الطاف احمد شاہ کی طرح اور بھی حریت رہنمائوں اور کارکنوں کے علاوہ عام کشمیری شہری بھی بھارت کی جابرانہ اور ظالمانہ حکومتی فوج کے ظلم کا شکار ہیں۔ اس سے قبل حریت رہنما سید علی گیلانی اور ان کے جانشین اشرف صحرائی بھی بھارتی قید میں ظلم و تشدد برداشت کرتے ہوئے شہید ہوچکے ہیں۔ تحریک آزادی کے اہم رہنما یٰسین ملک کی بھی بیماری تشویش ناک صورت اختیار کرچکی ہے، وہ بھی صبر و استقامت کا پہاڑ بنے ہوئے ہیں۔ الطاف احمد شاہ کی بھارتی حراست میں شہادت کوئی منفرد واقعہ نہیں ہے، البتہ اس واقعے سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی حکومت کے جبرواستبداد کی شدت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور یہ تاریخ 75 برسوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ بھارتی حکومت اپنے جبر و استبداد کے باوجود کشمیریوں کی مزاحمت ختم کرنے میں ناکام ہے۔ 5 اگست 2019ء کے اقدام کے ذریعے بھارت کی حکومت نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام کے بعد سے پاک بھارت مذاکرات بھی معطل ہیں۔ نریندر مودی حکومت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی جغرافیائی اور ریاستی حیثیت کو آبادی کے ساتھ تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی کررہی ہے، اس مقصد کے لیے غیر کشمیریوں کو کشمیر میں آباد کرنے کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔ جبکہ کشمیر کے مستقبل کے بارے میں استصواب رائے سے قبل آبادی کے تناسب میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ بھارتی حکومت کے ان اقدامات کے بعد کشمیری آبادی کے ردِعمل کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ مودی حکومت گزشتہ تین سال میں وہاں انتخابات بھی نہیں کرا سکی ہے۔ یہ صورتِ حال کشمیریوں کی بھارت کے خلاف نفرت، مزاحمت اور احتجاج کی ایک شہادت ہے۔ مسئلہ کشمیر 1948ء سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے، یہ مسئلہ اقوام متحدہ کا بھی امتحان بن چکا ہے۔ کیا وہ حقیقی معنوں میں آزادی، انصاف اور انسانی حقوق کی اقدار پر یقین رکھتے ہیں؟ کشمیریوں کو آزادانہ رائے شماری کا حق دینے کے سوا اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتِ حال کی وجہ سے پاکستان کی حکومت اور عوام کی ذمے داری میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے تو ناقابل بیان مزاحمت کے ذریعے اس مسئلے کو زندہ رکھا ہے اور بھارت نواز کشمیری قیادت کو غیر موثر بنایا ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی حکومت کا کردار قابل اطمینان نہیں ہے۔ کشمیریوں کے حق رائے شماری سے انحراف کرکے مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں ہے۔ نہ ہی کشمیر کو نظر انداز کرکے یا اسے پس پشت ڈال کر جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں کے درمیان امن قائم ہوسکتا ہے اس حقیقت کو بھی ہم نظر انداز نہیں کرسکتے کہ ہمارا خطہ عالمی کش مکش کا حصہ بن گیا ہے، مسلم ممالک بالخصوص پاکستان طویل عرصے سے امریکا سمیت عالمی طاقتوں کا ہدف ہے۔ امریکا کا یہ حکم ہے کہ پاکستان خطے میں بھارت کو ’’علاقائی سامراج‘‘ کی حیثیت کو قبول کرے، کشمیریوں پر مودی حکومت کے دور میں جن مظالم کا اضافہ ہوا ہے اس کے شواہد اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دیگر عالمی اداروں کی رپورٹوں میں موجود ہیں، لیکن عالمی طاقتوں نے اس سے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔ بعض لوگوں کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ ماضی کو نظر انداز کیا جائے، یعنی کشمیر کو بھول جائیں، بعض لوگوں کو بھارت سے تجارت معاشی خوشحالی کا ذریعہ نظر آتی ہے، بعض لوگوں کو بھارت کے مظالم کی مزاحمت سے گریز میں امن کی ضمانت نظر آتی ہے۔