تھرکول: کامیابی کو ناکامی نہ بنائیں

493

وزیراعظم پاکستان نے قوم کو خبردار کیا ہے کہ موسم سرما کے لیے گیس کا انتظام نہیں ہوگا۔ گیس بہت مہنگی ہوچکی، ہماری بساط سے باہر ہے درآمد نہیں کرسکتے۔ انہوں نے بتایا کہ 6 ماہ میں توانائی پر 24 ارب روپے خرچ کرچکے ہیں۔ انہوں نے تھرکول کے انرجی بلاک ٹو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ خوش خبری بھی دی کہ اس سے سالانہ 6 ارب ڈالر کی بچت ہوگی اور ہم تین سو سال تک اس منصوبے سے بجلی بنا سکیں گے۔ جدید ٹیکنالوجی اور چین کے تعاون سے مکمل ہونے والے اس منصوبے سے آلودگی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ اب تک تھر کے کوئلے کا استعمال نہ کرنا بڑی غلطی تھی۔ تھر کے بارے میں وزیراعظم نے بتایا کہ یہاں 175 ملین ٹن ذخائر موجود ہیں، یہاں سے 10 روپے فی یونٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اتنے بڑے منصوبے کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم نے نامعلوم وجوہ پر یہ خطرہ ظاہر کیا کہ گیس بہت مہنگی ہے درآمد نہیں کرسکتے۔ انہوں نے تھرکول کے ذخائر کی خوشی کو بھی غیر ضروری بات کرکے ضائع کردیا۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ کئی برس سے پاکستان گیس کے بحران کا شکار ہے، سردیوں میں گیس کی شدید قلت ہوجاتی ہے اور یہ بھی لوگوں کو معلوم ہے کہ باہر سے گیس مہنگی ملتی ہے۔ لیکن وہ قوم کو یہ بھی تو بتائیں کہ پاکستان میں سستی گیس کیوں نہیں نکالی جارہی اور پاکستانی گیس نکالنے کا ٹھیکا کس ملک کو دے رکھا ہے جس کی وجہ سے ملکی پیداوار بھی مہنگی ہوگئی ہے۔ مزید ذخائر کیوں تلاش نہیں کیے جارہے، گیس درآمد تک بات کیوں پہنچتی ہے؟ صرف درمیان کے چار سال چھوڑے جائیں تو سارے بحران کی بڑی ذمے دار پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ہی نکلیں گی تو پھر اس اجتماعی غلطی پر اجتماعی توبہ تو یہی لوگ کریں۔ وزیراعظم نے تھرکول کے بارے میں باتیں بتائی ہیں اور جو خصوصیات بتائی ہیں یہ منصوبہ اس سے بھی زیادہ خصوصیات کا حامل ہے۔ اگر سالانہ 6 ارب ڈالر کی بچت ہوگی تو اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگلے سال سے آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جانی چاہیے اور اس کے اگلے سال کے 6 ارب ڈالر کی بچت سے ملک میں گیس کے نئے ذخائر تلاش کرکے توانائی کے 24 ارب ڈالر کی بھی بچت کرسکیں گے۔ افسوس تو اس پر ہوتا ہے کہ جب پاکستان میں قدرتی گیس دریافت ہوئی تھی تو اسی طرح کے سبز باغ دکھائے گئے تھے کہ ملک میں سبز انقلاب آئے گا، ہر گھر میں گیس ہوگی، ایندھن اور توانائی کی بچت ہوگی، قوم خوشحال ہوگی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سبز انقلاب سبز باغ بن گیا اور خوشحالی ہوا ہوگئی اب گیس ہی نایاب ہے۔ اصل مسئلہ نااہلی اور غلط پالیسیاں ہیں، ایک دوسرے سے دشمنی ہے۔ ہر حکومت اپنے دور کے لیے ساری منصوبہ بندی کرتی ہے۔ پی ڈی ایم کو معلوم ہے کہ اس سال سردیوں کے لیے گیس نہیں تو درآمد کرنے کے بجائے ایک مرتبہ ملکی ذخائر سے گیس نکالیں شاید ایک ہی دفعہ گیس کا بحران آئے گا اور پھر اربوں ڈالر کی بچت ہوگی۔ یہ عجیب رویہ ہے کہ جوں ہی ملک میں کسی چیز کا بحران پیدا ہوا اس چیز کو درآمد کرنے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ خواہ بھارت ہو یا اسرائیل کچھ نہیں دیکھا جاتا۔ یہاں تک کہ زرعی ملک میں غذائی اشیا کی کمیابی کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے اس کا حل بھی درآمد ہی میں تلاش کیا گیا ہے، اب سیلاب کے نام پر درآمدات ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ملک میں بار بار سیلاب آتے رہتے ہیں کہاں کہاں پانی آتا ہے کہاں کہاں فصلیں ہوتی ہیں کہاں نقصان زیادہ ہوا ہے۔ اس کیفیت سے نکلنے کا یہی طریقہ ہے کہ ان علاقوں میں رفتہ رفتہ فصلوں کو اگانا اور آبادی بسانا بند کردیں جہاں پانی آجاتا ہے بلکہ ان مقامات کو آبی گزرگاہ اور ذخیرہ بنا لیا جائے۔ یہی مصیبت راحت بن جائے گی۔ لیکن چونکہ اصلاح اور بہتری کی خواہش ہی نہیں تو کوشش بھی نہیں ہے۔ اگر اب بھی یہ کہا جائے کہ اہم بنیادی نوعیت کی فصلیں جن پر خوراک اور برآمدات کا انحصار ہے ان کو محفوظ مقامات پر رفتہ رفتہ منتقل کیا جائے سبزیاں تو ایسی چیز ہیں کہ پورے ملک میں کہیں بھی اگائی جا سکتی ہیں چاول کپاس کھجور گندم کے لیے تو خاص زمین کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بہت سی سبزیاں اور پھل ہر جگہ اگائے جا سکتے ہیں اس مقصد کے لیے زمین تیار کی جانی چاہیے اب تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو ہو چکا سو ہو چکا کسی کو الزام دینے کے بجائے اب آگے بڑھیں تھرکول سے سالانہ 6 ارب ڈالر کی بچت کو صحیح استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کریں اور اس کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کرنے والا کوئی کام نہ کیا جائے۔ کیونکہ ہمارے حکمران تو اس قسم کے ہیں کہ بادل دیکھ کر گھڑا پھوڑ دیتے ہیں یہ بھی 6 ارب ڈالر کی بندر بانٹ میں لگ گئے تو ایک کامیابی بیٹھے بٹھائے ملک کی ناکامی بلکہ تباہی کا پیغام لائے گی۔