عمران خان اور صدر علوی میں فاصلے

523

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ عمران خان اقتدار سے محرومی پر سخت مایوس ہوئے تھے اور اسی عالم میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب اسمبلی میں نہیں بیٹھیں گے۔ یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا مجھ سے پوچھتے تو میں کوئی اور مشورہ دیتا۔ صدر مملکت نے کہا کہ میں اس بات پر قائل نہیں کہ عمران خان کی حکومت ہٹانے میںکوئی غیرملکی سازش ہوئی تھی لیکن میرے شبہات ہیں اس لیے تحقیقات ہونی چاہیے۔ فوج نیوٹرل ہے اور آئین کے تحت اسے نیوٹرل ہی رہنا چاہیے۔ آئین سیاست میں فوج کو کوئی کردار نہیں دیتا یہاں پہنچ کر صدر نے ایک اور بات کہہ دی جس پر عمران خان اور ان کے درمیان خلیج بڑھ سکتی ہے کہ میں عمران خان کا وکیل نہیں انہیں خود وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ فوج کو نیوٹرل کیوں نہیں دیکھناچا ہیے۔ صدر نے آرمی چیف کے تقرر پر بھی کہا کہ یہ آئین کے مطابق ہونا چاہیے اور زبردستی سے قانون کے لبادے میں بھی جو کام ہو گا وہ زیادتی ہے۔ اسی طرح صدر نے معیشت اور انتخابات پر ڈائیلاگ کی بات کی لیکن کہا کہ میری کوشش ہو گی کہ کم از کم معیشت ہی پر مفاہمت ہو جائے۔ صدر مملکت نے جتنے امور چھیڑے ہیں وہ سارے پی ٹی آئی چیئرمین کے موقف کے برخلاف ہیں۔ عمران خان فوری الیکشن چاہتے ہیں اور وہ معیشت پر اتفاق رائے چاہتے ہیں خان صاحب فوج کو نیوٹرل نہیں دیکھنا چاہتے جب کہ صدر مملکت فوج کو ہرحال میں نیوٹرل دیکھنا چاہتے ہیں خان صاحب اپنی حکومت کے خاتمے کو غیر ملکی سازش کہتے ہیں اور صدر اس بیانیے کی وکالت کے بجائے صرف شبہات کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ کہہ رہے ہیں کہ میں اس بات کا قائل نہیں۔ صدر عارف علوی کا عمران حکومت کے خاتمے کے بعد یہ پہلا مفصل انٹرویو ہے جس میں انہوں نے کھل کر پی ٹی آئی چیئرمین کے موقف سے اختلاف کیا ہے۔ قومی منظرنامے میں کچھ تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں جو یہ بتا رہی ہیں کہ کوئی نیا سیٹ اپ لایا جارہا ہے۔ اس کے لیے جو انتخاب کیا جارہا ہے وہ تو قابل اعتراض ہے ہی لیکن وہ یہ بھی بتا رہا ہے کہ سیاست میں غیرسیاسی لوگوں کی مداخلت جاری ہے۔ اس لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ دراصل سب ایک ہیں۔ جو کہا جائے گا وہی کریں گے۔