عدم استحکام کون پیدا کرتا ہے؟

537

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دوٹوک الفاظ میں فوج کی سربراہی سے اپنی مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہونے کا اعلان کردیا۔ اب انہوں نے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے بارے میں کہا ہے کہ کسی فرد ملک یا گروہ کو پاکستان کو سیاسی معاشی طور پر غیر مستحکم کرنے کی کوشش کو عوامی حمایت سے ناکام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بدل گئی ہے ہمیں بھی تبدیل ہوجانا چاہیے ورنہ اسٹیٹس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ فیک نیوز اور پروپیگنڈے پر توجہ نہ دیں۔ پاک فوج کے سربراہ نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے بھوک، غربت، جہالت، بڑھتی آبادی، موسمیاتی تبدیلی اور بیماریوں کا مل کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ جنرل صاحب ہمسایوں کے ساتھ تمام مسائل پرامن طور پر حل کرنے کے خواہاں ہیں لیکن واضح کیا کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ دہشت گردی کا خاتمہ سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ جنرل باجوہ نے یہ گفتگو عین 12 ربیع الاول کے موقع پر کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے کی ہے۔ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے عزم کا پوری قوم کو ساتھ رہنا چاہیے۔ لیکن یہ ایک مسئلہ ہے کہ یہ کام بھی ملک میں استحکام پیدا کرنا حکومت کا کام ہے فوج کا نہیں اور حکومت اپوزیشن سے اور اپوزیشن حکومت سے الجھی ہوئی ہے ایسے میں استحکام کیسے پیدا ہوگا۔ اور یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں کہ متحارب سیاسی جماعتیں کسی کے اشارے پر ایک دوسرے سے لڑتی اور ایک دوسرے سے اتحاد کرلیتی ہیں۔ کل تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے دشمن تھے اور ایک دوسرے کو ملک دشمن اور غدار قرر دیتے تھے لیکن فوج کے تعاون سے بننے والی پی ٹی آئی حکومت کے چار سالہ دور میں اپوزیشن کے دونوں گروہ ایک ہوگئے یا کردیے گئے۔ آج یہ دونوں شیر و شکر ہیں۔ پورے دور میں دونوں گروہوں کی لڑائی یہ تھی کہ فوج ہمارے ساتھ ہے اور فوج نے بھی بار بار یہ کہا کہ ہم پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ ہیں۔ چھ ماہ تک حکومت پر تنقید نہ کی جائے۔ پھر اچانک یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کے خلاف دونوں گروہ ایک ہوگئے اور پی ٹی آئی حکومت ختم ہوگئی۔ جب سے حکومت ختم ہوئی اس وقت سے ملک میں عدم استحکام ہے۔ حکومت پی ٹی آئی کو اور وہ حکومت کو عدم استحکام کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ پنجاب حکومت ختم کرکے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تو اس کے خلاف پھر عدلیہ سے رجوع کرلیا گیا اور عدلیہ نے حمزہ کی حکومت ختم کردی۔ ایک بار پھر پنجاب میں عدم استحکام پیدا ہوگیا۔ اس تبدیلی کو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے قبول نہیں کیا اور اب وزیراعظم نے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے کہ قومی اسمپبلی کی طرح پنجاب میں بھی آئینی طور پر حکومت کی تبدیلی پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ یعنی یہ عدم استحکام پیدا کرنے کا براہ راست اعلان ہے۔ دوسری طرف عمران خان مسلسل یہ اعلان کررہے ہیں کہ آج کال دے رہا ہوں کل کال دے رہا ہوں۔ اسلام آباد کا گھیرائو کروں گا۔ فوج کو بھی بْرا بھلا کہہ رہے ہیں اور فوجی جرنیلوں کو بھی۔ گویا اس وقت ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے والے۔ !! حکومت، پی ٹی آئی اور ان دونوں کی پشت پناہی کرنے والی مقتدر قوتیں ہیں پھر عدم استحکام پیدا کرنے والی نامعلوم قوتوں کے خلاف اعلان جنگ کے بجائے ہمیں اپنی صفوں کو سیدھا کرنا ہوگا۔ جنرل صاحب کسی فرد یا گروہ کے بجائے حکومت اور اپوزیشن اور ان کے سرپرستوں کو نظام کا پابند کرنا ہوگا۔ جب سب ملکی آئین کی پابندی کررہے ہوں گے تو عوام بھی ان تمام اداروں کے پیچھے کھڑے ہوں گے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کرے۔ اپوزیشن اسے حکومت کے خلاف گھسیٹے اور حکومت اپوزیشن کو دبانے کے لیے اداروں کو استعمال کرے اور پھر بھی ملک میں سیاسی معاشی استحکام برقرار رہے۔ لہٰذا سب کو اپنا اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ دنیا بدل گئی ہے ہمیں بھی تبدیل ہوجانا چاہیے ورنہ قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ لیکن مشکل تو یہ ہے کہ ہمیشہ ساری قیمت عوام اور ملک ادا کرتے ہیں۔ عدم استحکام پیدا کرنے والے تو اقتدار کے مزے ہی لوٹتے ہیں۔ بدلنا تو سب کو ہوگا۔ جنرل صاحب نے فیک نیوز اور پراپیگنڈے پر توجہ نہ دینے کی بات کی ہے اور یہ درست بھی ہے کہ ایسا کرنے سے ہی ملک میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے لیکن قوم اس بات کا تعین کیسے کرے کہ فیک نیوز اور پراپیگنڈا کیا ہے۔ کیونکہ جو بھی حکومت میں ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ ملک ترقی کررہا ہے اور جو اپوزیشن میں ہو وہ کہتا ہے کہ ملک تباہ ہورہا ہے فوج کہتی ہے کہ حکومت اچھی ہے اور کبھی اپوزیشن کو اچھا کہتی ہے اور آج کل حکومت کو اچھا اور اپوزیشن کو عدم استحکام پیدا کرنے والا کہا جارہا ہے لوگ حیران ہیں کہ کون سی خبر فیک ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو اچھا کہنے والی یا پی ڈی ایم حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے والی خبر۔۔۔۔ کل تک پی ٹی آئی حکومت اچھی تھی اور آج اپوزیشن میں ہیتو بری ہوگئی۔ یہی کیفیت پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی ہے۔ خود ڈالر کی قیمت ایک روز میں 80 روپے بڑھادیں تو یہ ملک کے لیے ضروری تھا۔ پی ڈی ایم بڑھائے تو معیشت کو تباہ کردیا۔ اس ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے والے کسی دوسرے ملک کے لوگ نہیں اپنے ہی ملک کے سیاستدان، حکمران اور اسٹیبلشمنٹ ہیں یہ سب اپنے مقصد کے لیے ایک دوسرے کے خلاف میدان سجاتے ہیں فرضی تماشے اور مقابلے ہوتے ہیں اور پھر کچھ لوگ حکومت اور کچھ اپوزیشن بن جاتے ہیں۔ پس پردہ قوتیں انہیں استعمال کرتی ہیں یہ سب ایک دوسرے کو ملک دشمنوں کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور دشمن ملک والے دور بیٹھے مسکرارہے ہوتے ہیں کہ ہمیں مفت کے ایجنٹ ملے ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ خبر پاکستان کے لیے بہت بڑی ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ سب سے بڑا کارنامہ ہے سب کو اس خبر پر یقین کرنا چاہیے اور اب ملک میں امن و امان ہوگا استحکام کی جانب پہلا قدم یہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی دفاعی فورسز اور عوام نے زبردست جنگ لڑی ہے، اور عظیم قربانیاں دی ہیں، لیکن یہ بھی ایک مخمصہ ہے کہ کیا واقعی دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا ہے، اکثر دہشت گردی کے خاتمے کے دعوے کے فورآ بعد کوئی دہشت کردی ہو جاتی ہے ، اللہ خیر کرے۔