سیرت نبوی اور معاشی خوشحالی

682

آپؐ کی سیرت مطہرہ زندگی کے ہر شعبہ میں بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہے شریعت مصطفیؐ میں ملکی قوانین سے لے کر انفرادی معاملات تک کے احکام موجود ہیں۔ آپؐ کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد فوری طور پر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی یعنی ریاست کے لیے سیکرٹریٹ قائم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ معاشرے کے معاشی وسائل کو اولیت دی گئی۔ چونکہ ہنگامی حالت تھی اور دوسری طرف انصار مدینہ تھے جن میں بعض متوسط بھی تھے اور بعض کافی مالدار بھی تھے یعنی عملی طور پر جو شکل آج پاکستان کی ہے کچھ ایسی ہی شکل مدینہ منورہ کی تھی۔ ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ معاشی ظلم کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے اور دوسرا طبقہ کافی متمول ہے۔ ایسی حالت میں محسن انسانیتؐ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ ایک ٹیم موجود تھی جو اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھتی تھی اس لیے اس ٹیم کے افراد نے ایک دوسرے کے لیے قربانی دی اور اس طرح دو طبقوں میں جو غیر معقول معاشی فرق تھا وہ ختم ہو گیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معاشیات کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا جس طرح آج ہماری ساری معیشت سودی نظام پر قائم ہے۔ بالکل یہی کیفیت اس دور میں بھی تھی۔ مگر نبی اکرم ؐ نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دو کیونکہ اس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی۔ بلکہ آپؐ نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرض حسنہ کا نظام رائج فرمایا اور جب معاشرے کے افراد عملاً باہمی تعاون کے ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو آپؐ نے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیا۔ مگر افسوس کہ آج کی نام نہاد اسلامی حکومتیں ورلڈ بینک،آئی ایم ایف اور دیگر یہودی اداروں سے سودی قرضے لے کر مسلمان نسلوں کو ان کے ہاں گروی رکھ رہی ہیں۔ جبکہ مسلمان معاشروں میں باہمی تعاون کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہم یہود کے معاشی تسلط سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے اور اس سنہری دور سے راہنمائی حاصل کی جائے تاکہ مسلم امہ اس زبوں حالی سے چھٹکارا حاصل کر سکے۔ موجودہ معاشی نظام چاہے سرمایہ درانہ ہو یا اشتراکی مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں، ایک متوازن معاشی نظام کے لیے ضروری ہے کہ اس میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو جو موجودہ نظام میں نہیں ہو سکتی۔
اسلام نے معاشی نظام کی بنیاد رکھی ہے جو ریاستی سطح پر زکواۃ کا نفاذ ہے جس کے نتیجے میں ریاست کو دولت مند لوگوں سے ان کی دولت کا ایک طے شدہ حصہ لازمی طور پر لینا ہے اور غریب اور نادار لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہے اور اس طرح ریاست کو اپنے تمام لوگوں کی بنیادی ضروریات کی ذمے داری اٹھانی ہے۔ جدید معاشیات میں ایک ملک کی اشیا اور خدمات کی مجموعی طلب یا جی ڈی پی کو بڑھانے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کورونا کے دوران دنیا میں مختلف حکومتوں اور سماجی تحفظ کی اسکیموں کے تحت غریب لوگوں کو نقد رقم کی منتقلی اور دیگر عطیات دیے گئے تھے۔ یہ عطیات نہ صرف غریبوں کی زندگی کے لیے انتہائی اہم تھے بلکہ معیشت دان اس پر متفق ہیں کہ یہ عطیات معیشت کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی اتنے ہی اہم تھے۔ زکواۃ کا نظام قائم کر کے پاکستان کی جی ڈی پی میں نمایاں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک مشہور عالمی معاشی ماہر کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں زکواۃ کا پوٹینشل جی ڈی پی کے 4.4 فی صد تک ہے جو 2500 ارب روپے سے زیادہ ہو گا۔ اس رقم سے ہر غریب خاندان کے لیے سالانہ دو لاکھ روپے سے زیادہ رقم مختص کی جا سکتی ہی جوان کی زندگیوں میں انقلاب پیدا کر سکتی ہے۔ زکواۃ تقسیم کرنے میں ریاست کے کردار کی اس آیت میں تائید کی گئی ہے جس میں زکواۃ کا انتظام کرنے والوں کا ذ کر ان آٹھ اقسام میں کیا گیا ہے جن میں زکواۃ تقسیم ہونی ہے۔ یہ آیت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ زکواۃ وصول کرنے کے لیے ریاست کی طرف سے لوگ مقرر ہونے چاہییں۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے خود ہی اس مسئلے کو حل کیا ہے۔ ’’وہ لوگ انہیں اگر ہم زمین میں اقتدار دیتے ہیں تو وہ نماز کا قائم کرتے ہیں اور زکواۃ ادا کرتے ہیں‘‘۔ (22:41) اسلامی قانونی نظام کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ زکواۃ جمع کرنا اور استعمال کرنا ہمیشہ ہی ریاست کی بنیادی ذمے داریوں میں سے ایک سمجھا جاتا رہا تھا۔ ابو بکر صدیقؓ نے خلافت کے آغاز پر منکرین زکواۃ کے خلاف اعلان جہاد کیا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں جمع ہونے والی زکواۃ اس کے ٹوٹل پوٹینشل کا 10 فی صد بھی نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ جب غریب افراد اپنا حق بجائے امیروں سے لینے کے حکومت سے وصول کرتے ہیں تو ان کی عزت اور وقار محفوظ رہتا ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر زکواۃ افراد پر چھوڑ دی جائے تو یہ بے ربط اور ناکافی ہو گی، زکواۃ درحقیقت انسانی تاریخ میں نافذ کیا گیا سوشل سیکورٹی کا پہلا نظام ہے، ایسا نظام جس کا انحصار انفرادی رضاکارانہ خیرات پر نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک ایسے سرکاری ادارے پر ہے جو باقاعدگی سے ایک طے شدہ حصہ، معاشرے کے با ثروت لوگوں سے لازمی طور پر وصول کرتا ہے اور ضرورت مندوں کو منظم امداد تقسیم کرتا ہے۔ زکواۃ غریبوں کی تعلیم اور استعداد بڑھانے پربھی خرچ کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو غربت سے مستقل طور پر نکالا جا سکے۔ زکواۃ کا ایک خاص حصہ ملازمت کی گارنٹی پر خرچ کرنا چاہیے، بیروز گارلوگوں کے ذریعہ مفید کام بھی کرائے جاسکتے ہیں۔ ایک طرف ہمارے ملک میں لاکھوں لوگ بے روزگار ہیں اور دوسری طرف انفرا اسٹرکچر کی تعمیر سے لے کر درخت لگانے تک متعدد کام، کرنے کے ہیں۔ آخر ہمارا مالیاتی نظام معاشرے کے اندر ان کاموں کو انجام دینے کے لیے بے روزگار ورک فورس کو استعمال کرنے کے قابل کیوں نہیں ہے؟ معروف فلاحی اداروں کے اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کے لیے لوگوں کو اجازت دی جانی چاہیے کہ وہ اپنی زکواۃ کچھ حصہ ان کو دینے کے لیے سفارش کر سکیں۔
زکواۃ کا ایک بڑا فنڈ جو کروڑوں غریب لوگوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ ان میں کمانے اور زندگی بہتر گزارنے کی اہلیت پیدا کر رہا ہو، اس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت دوسرے امیر لوگوں سے بھی بڑی مقدار میں زکواۃ حاصل کی جاسکتی ہے۔
زکواۃ کا نظام ایک بہترین معاشی انصاف ہے جس کا قرآن میں بار بار حکم دیا گیا ہے۔ زکواۃ کا نظام لوگوں کی زندگی کو بہ حیثیت مجموعی بہتر بنا سکتا ہے اور پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پہ گامزن کر سکتا ہے اس لیے جہاں بھی ممکن ہو ہمیں اس کے نفاذ کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ آخر کار یہ ایک زبردست عوامی مطالبہ بن جائے اور جلد اس کا نفاذ ممکن ہو۔