اجتماعیت کو فوقیت ہی رہنی چاہیے

422

کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اجتماعیت کا کردار بڑا کلیدی ہوتا ہے۔ ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں اجتماعیت کو قائم دائم رکھنے کے لیے انسان جدوجہد کرتا ہی دکھائی دیتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں تو اجتماعیت پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ بلکہ اسے عبادات کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر فرض نمازوں کی باجماعت ادائیگی کے احکامات اور جمعہ و عیدین کی نمازوں کے بڑے اجتماعات کی فضیلت۔ معاشرے وہی ترقی کرتے ہیں جہاں صالح اجتماعیت مضبوط ہو۔
مگر انسان بڑی محدود سوچ کا مالک ہے، ہر انسان کو یہ وہم رہتا ہے کہ جس دنیا میں وہ رہ رہا ہے شاید اسی کی مرہون منت ہے۔ وہ نہ ہو گا تو سب تباہ ہو جائے گا۔ جبکہ ایسا حقیقت میں بالکل بھی نہیں جو دنیا کا خالق ہے وہی بہتر جانتا ہے کہ نظام ہستی کیسے چلانی ہے۔ آپ اپنے ارد گرد ذرا نظر تو گھما کے دیکھیں جن بچوں کے پیدا ہوتے ہی ان کے والدین وفات پا جاتے ہیں وہ بڑے ہو کر معاشرے میں کہیں بہتر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ان سے جن کے والدین حیات ہیں۔
آج کل دنیا بھر میں یہ سوچ بہت ہی عام ہے کہ میں نہ رہا تو میرے بچوں کا کیا بنے گا، میرے کاروبار کا کیا بنے گا، میرے خاندان کا کیا ہو گا۔ یہ نظام ہستی تو چلتا رہتا ہے حالانکہ اس طرح کی سوچ رکھنے والوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ یا پھر یہ کہ یہ کاروبار، یہ زمیندارہ، یہ فیکٹری، یہ پارٹی، یہ تحریکیں، یہ ادارے، یہ اجتماعیت یہ سب میری ہی مرحون منت ہیں۔ یا میں ناگزیر ہوں وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ جو شخص ایسا سوچتا ہے یا ایسی سوچ رکھتا ہے حقیقت میں وہ ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہے جو انسان کو کچھ سوچنے یا کرنے پر نہیں اکساتی۔ اسی طرح نادانستہ طور پر اجتماعیت کو برباد کرنے میں مشورے کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے جب مشورہ دینے والا اپنے آپ کو عقل کل سمجھ بیٹھے۔ مشورہ کرنے کے بارے میں تو اکثر کہا جاتا ہے کہ مشورہ تو دیوار سے بھی کر لینا چاہیے اور جس سے مشورہ مانگا جائے اسے چاہیے کہ جب مشورہ دے تو اپنی سعی میں بہترین مشورہ دے، مگر مشورہ دے کر زبردستی اس پر عمل کروانا اجتماعیت کا بیڑا غرق کر دیتا ہے۔
مشورہ دینا اچھی بات سہی لیکن اس کو مشورہ نہیں کہا جاسکتا جو ہم اکثر دوسروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسے اس طرح کرنا چاہیے تھا یا یہ کہنا چاہیے تھا، یہ دراصل ایک منفی سوچ ہے، خود پسندی ہے، خوش فہمی ہے، اپنی عقل پر ناز ہے اور یہ سوچ ہے کہ میں تو سب کچھ جانتا ہوں۔ یہی چیز انسان کو تباہ کر رہی ہوتی ہے دیمک کی طرح اندر ہی سے کھوکھلا کر رہی ہوتی ہے، کچھ مزید سیکھنے سے روکتی ہے۔
دراصل جب آپ دوسروں کو مشورہ دے رہے ہوتے تو از خود آپ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ میں تم کو تم سے بھی زیادہ جانتا ہوں یا تم جو اپنی بہتری کے بارے میں سوچتے ہو، میں لیکن تمہارے بارے میں تم سے زیادہ تمہارا خیر خواہ ہوں۔ یہ خیر خواہی نہیں بلکہ حقیقت میں یہی سوچ کی پستی ہے اور کار سرکار میں کھلی مداخلت بھی، اصلاح کے پردے میں خرابی اور دراڑ کی عملی کوشش ہے۔ اب جس جس جگہ اجتماعیت کے خلاف یہ کوشش دانستہ یا نادانستہ ہو رہی ہو تو اس اجتماعیت کی ذمے داری ہے کہ اس کوشش کو ناکام بنائے یا پھر اس کو نظر انداز کردے تاکہ رسپونس نہ ملنے کی صورت میں تھک ہار کر وہ شخص خود ہی بعض آجائے۔ اجتماعیت کو پروان چڑھانے کے لیے قیادتوں کو بڑے فیصلے کرنے ہی پڑتے ہیں۔ اپنی میں میں سے ہر کسی کو باہر نکلنا ہو گا ببانگ دہل حق پر مبنی اجتماعیت کو سہارا دینا ہی پڑے گا۔ خود پسندی میں مبتلا افراد کی سنی ان سنی کر کے اجتماعیت کو قائم و دائم رکھنا ہو گا۔ مولانا مودودیؒ اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو نظر انداز کیا کرتے بلکہ انہوں نے کبھی بھی جواب نہیں دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتب کو دنیا بھر میں عزت و تکریم سے دیکھا و پڑھا جاتا ہے۔