قدرتی آفت، آبی دہشت گردی یا بد انتظامی کا نتیجہ

268

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس پاکستان آئے تو وفاقی وزیر احسن اقبال نے انہیں بتایا کہ ’’تمام انفرا اسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے اور تعمیر نو کی ضرورت ہے‘‘۔ ہم کب تک اس طرح کی امداد پر جیتے رہیں گے ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ تھی کہ سیلاب پر ہم قابونہیں پاسکے۔ یقینا یہ قدرتی آفت ہے لیکن اس پر خطے کے ممالک بھارت اور بنگلا دیش نے قابو پالیا ہے اور اس کے نقصانات کی شرح کو کم کیا ہے۔ پاکستان میں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ دریائے سوات پر قائم ہوٹل دریا برد ہوا تو یہ معلوم ہوا کہ یہ ناجائز طور پر بنا ہوا تھا۔ ایسے کتنے ہی کام ناجائز اور غیر قانونی طور پر ہوتے ہیں جن کے نتائج نہایت خوفناک نکلتے ہیں۔ ہم قانون تو بناتے ہیں لیکن طاقت ور لوگوں پر ان کا اطلاق نہیں کرتے، اس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جن علاقوں میں گھر بنانے کی اجازت نہیں تھی وہاں محل کھڑے دیے گئے۔ شہروں میں برساتی نالوں پر پلاٹ بنا کر الاٹ کردیے گئے۔ جس کی وجہ سے بارش کی رحمت زحمت بن جاتی ہے۔ اسی طرح پلاٹوں کے چکر میں دریا کے پاٹ تنگ کردیے جاتے ہیں۔ دریاؤں کی زمین دریاؤں کو واپس کردیں سیلابی اور بارانی پانی کو جمع کرنے کے لیے منصوبے بنائے جائیں اور ان میں دیانت داری سے کام کیا جائے تو بھی مالی فائدہ ملک اور اس کے باشندوں ہی کو ہوگا۔ ورنہ نقصان ہوتا ہی رہے گا۔
اس حوالے سے خبر ملی ہے کہ ’’سیلابی پانی کو زراعت صنعت اور تجارتی استعمال میں لانے کے لیے چھوٹے بڑے آبی ذخائر نہ ہونے سے صرف ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں 18 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا پانی سمندر کی نذر ہوگیا۔ مزید تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ مختلف حکومتی اداروں کے اعداد وشمار کے مطابق 16 جولائی سے 3 ستمبر تک صرف دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب سے اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے، اس دوران ڈاؤن اسٹریم کوٹری سے روزانہ ایک لاکھ 86 ہزار 131 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہو چکا ہے۔ اعداد وشمار سے پتا چلتا ہے کہ مجموعی طور پر ڈیڑھ ماہ کے دوران میں 18 اعشاریہ 642 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں چلا گیا جب کہ
پاکستان میں مجموعی طور پر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 13 اعشاریہ 64 ملین ایکڑ فٹ ہے یعنی پاکستان میں ذخیرہ کرنے کی گنجائش سے بھی تین ملین ایکڑ فٹ زیادہ پانی سمندر میں چلا گیا ہے۔ آبی ماہر نے بتایا ملک میں صوبوں کے درمیان سیلابی پانی کی تقسیم کا باقاعدہ فارمولا موجود ہے مگر اس سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے بڑے ڈیمز بنائے ہی نہیں گئے پانی کا تخمینہ لگانے کے لیے ایک فارمولا ہے۔ لیکن اس پر کبھی عمل ہی نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی کو زراعت، انڈسٹری اور کمرشل استعمال میں لائیں تو اس کی قیمت ایک ارب ڈالر بنتی ہے اس حساب سے اب تک 18 ارب ڈالر کا قیمتی پانی سمندر کی نذر ہوچکا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں پینے کے پانی میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ کمی ہو رہی ہے‘‘۔ بارش کا پانی بہت معمولی ٹریٹمنٹ کے بعد قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے۔ آبی ماہر نے تو صرف پانی سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا ہے جو انسانی جانوں، وسائل، مویشیوں اور انفرا اسٹرکچر کا جو نقصان ہوا ہے اس کا ابھی اندازہ نہیں لگایا گیا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ایمرجنسی صورت حال ہے کیونکہ سندھ اور بلوچستان کے بڑے علاقے میں سیلاب سے انفرا اسٹرکچر کی جو تباہی ہوئی ہے اس کے بعد تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ کام ضرورت اس بات کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر ہو۔ یہ لازمی ہو کہ پانی کے راستوں کو اس طرح محفوظ بنایا جائے کہ زائد پانی ذخیروں میں ہی محفوظ ہو۔ سیلاب ایک قدرتی آفت ہے جس کا ملک تقریباً ہر سال مختلف صورتوں میں سامنا کرتا ہے۔ سیلاب کے آنے کے مختلف النوع اسباب ہوسکتے ہیں، جس میں وقت اور جگہ دونوں میں بارشوں میں وسیع تغیرات، معمول کے برخلاف بارشوں کا مسلسل ہونا، دریاؤں کی ناکافی صلاحیت، دریا کے کنارے کٹاؤ اور دریا کی تہوں کا کیچڑ، لینڈ سلائیڈنگ، ناقص قدرتی نکاسی آب۔ سیلاب زدہ علاقوں، برف پگھلنے اور برفانی جھیلوں کا پھٹنا وغیرہ سیلاب کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا بھر میں سیلاب کی آمد سے پیشگی خبردار کرنے کا نظام موجود ہے۔ بھارت اور بنگلا دیش میں یہ نظام موجود ہے اور نہایت موثر طریقے سے کام کررہا ہے پاکستان میں بھی یہ نظام موجود تو ہے اور فیڈرل فلڈ کمیشن کے نام سے ادارہ موجود ہے۔ لیکن سیلاب سے نمٹنے کا کوئی موثر طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس ادارے کی ویب سائٹ بھی کام نہیں کرتی۔ جبکہ بھارت میں وزارت آبی قوت اس مقصد کے لیے قائم کی گئی ہے کہ وہ سیلابوں کو کنٹرول کرسکے۔ اس وزارت کو ہندی میں ’’جل شکتی منتریالے‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے تحت سیلابوں سے محفوظ رہنے کے لیے2021 میں بھی ایکشن پلان بنایا گیا تھا۔ بھارت میں ہر سال یہ منصوبہ بنایا جاتا ہے اور سیلاب کے امکانات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ گزشتہ 20 سال سے یہ عمل جاری ہے۔ اپنے نقصانات سے انہوں نے سبق سیکھا ہے۔ انہوں نے یہ جائزہ بھی لینے کی کوشش کی ہے کہ ابتدائی سیلاب میں وارننگ سسٹم کیوں کام نہیں کرتے؟ بھارت میں شہری سیلاب کا سبب بننے والی شدید بارشوں کی نگرانی بھارت کا محکمہ موسمیات کرتا ہے، جبکہ دریاؤں میں پانی کی بڑھتی ہوئی سطح
کی نگرانی سینٹرل واٹر کمیشن کرتا ہے۔ سینٹرل واٹر کمیشن ریاستوں سے موصول ہونے والی معلومات کی بنیاد پر سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ڈیٹا مرتب کرتا ہے۔ پچھلے 20 سال کے اعداد وشمار کے مطابق ریاست آسام میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصان کا کوئی رجحان نہیں دیکھا جا رہا ہے۔ اقتصادی اصطلاح میں سب سے زیادہ نقصان سال 2017 میں 4164.81 کروڑ روپے تھا۔ سیلاب کا انتظام ریاستوں (صوبوں) کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ سیلاب پر قابو پانے اور کٹاؤ پر قابو پانے کی اسکیمیں متعلقہ ریاستیں اپنی ترجیحات کے مطابق مرتب کرتی ہیں اور نافذ کرتی ہیں۔ مرکزی حکومت اہم علاقوں میں سیلاب کے انتظام کے لیے تکنیکی رہنمائی اور مالی امداد فراہم کر کے ریاستوں کی کوششوں کی تکمیل کرتی ہے۔ ریاستوں کو مرکزی امداد فراہم کرنے کے لیے فلڈ مینجمنٹ پروگرام ہے۔ ’’دریاؤں کے انتظام کی سرگرمیاں اور سرحدی علاقوں سے متعلق کام‘‘ اسکیم کے تحت سیلاب کے انتظام کے کاموں کے پروجیکٹ کو شروع کرنے کے لیے ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو مالی امداد بھی فراہم کی گئی۔ سرحدی علاقوں سے متعلق کام میں بھارت کی اسکیموں کی نگرانی کی جانی چاہیے کیونکہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ بھارت سیلابی ریلے کا رخ اپنے پڑوسی ممالک کی طرف تو نہیں موڑدیتا ہے۔ کیونکہ یہ شکایت تو اکثر سننے میں آتی ہے کہ بھارت پاکستان آنے والے دریاؤں میں بلا اطلاع دیے پانی چھوڑ دیتا ہے۔ بھارت کئی بار سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرچکا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں موسمیاتی وارننگ کا نظام اپ ڈیٹ نہیں ہوا ہے اور پاکستان کے پاس موثر پیش گوئیوں کا نظام موجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی مراکز گنتی کے مقامات پر ہیں اور محکمہ موسمیات کے پاس جدید آلات کی کمی ہے۔ اگر محکمہ موسمیات درست ہے اور فلڈ کمیشن بھی کام کررہا ہے تو پھر خرابی کہاں پر ہے؟