آئی ایم ایف کی قسط کی بحالی

504

عالمی مالیاتی ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) کی بحالی کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔ اس طرح آئی ایم ایف سے ایک ارب سترہ کروڑ ڈالر کی قسط ملنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپریل کے آخر میں انتہائی کمزور معاشی پوزیشن کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تھے اور اس کے لیے ہر طرح کی سخت شرائط کو قبول کیا گیا۔ بجٹ تجاویز میں ٹیکسوں کی بلند ترین شرح اور توانائی کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے قبول کیے گئے جس سے شہریوں کے مالی بوجھ میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ان شرائط پر عمل درآمد کے باوجود آئی ایم ایف کے قرض کی بحالی کے امکانات مبہم ہی رہے یہاں تک کہ جولائی کے آخر میں آرمی چیف نے امریکی نائب وزیر خارجہ سے ٹیلی فون پر بات کی۔ اس معاہدے کی اہمیت یوں بھی ہے کہ یہ ایسے حالات میں کیا گیا جب ملکی معیشت شدید ترین دشواریوں سے دوچار تھی۔ حکومت کا موقف تو یہ ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے اس نے ملک کو سری لنکا جیسے حالات کا شکار ہونے سے بچایا ہے۔ معیشت کے دیوالیہ پن کے خدشات کا چھٹ جانا بلا شبہ ایک قابل ِ ذکر پیش رفت ہے مگر قرض کی رقم سے آخر کہاں تک؟ اگر بیرونی قرضے پہلے سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کا واحد ذریعہ ہیں تو معیشت کے لیے یہ ہرگز اچھی خبر نہیں۔ یہ مختصر مدتی سہولت تو ہو سکتی ہے مگر اس سے لاحق خطرات کا مستقل ازالہ ممکن نظر نہیں آتا۔ قومی معیشت کا پائیدار استحکام پیداواری صلاحیت میں اضافے سے ممکن ہے مگر سرِدست ہماری پیداواری کارکردگی گنجائش سے نمایاں حد تک کم ہے۔ ملکی برآمدات ہی کو دیکھ لیں گزشتہ دس برس کے دوران برآمدات میں بمشکل ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ 2010-11ء میں برآمدات 24 ارب 81 کروڑ ڈالر تھیں اور 2020-21ء میں 25 ارب 30 کروڑ ڈالر۔ اس دوران اگرچہ کئی سال ایسے بھی آئے جب برآمدات 21 ارب ڈالر تک رہیں؛ تاہم درآمدات میں اس دوران قریب 16 ارب ڈالر کا اضافہ ہو گیا۔ ہم زرعی معیشت کا دعویٰ کرتے ہیں مگر بیش تر زرعی اجناس بھی درآمد کیے بغیر چارہ نہیں۔ اس پیداواری کارکردگی کے ساتھ ملکی معیشت کو پائیدار استحکام کی منزل تک لے جانا ممکن نہیں۔
قرضوں کے ساتھ خواہ ان کی شرائط کتنی ہی نرم کیوں نہ ہوں کسی معیشت کو مستحکم کرنا ناممکن ہے۔ قرض وقتی سہارا ضرور ہو سکتے ہیں مگر پائیدار استحکام ہرگز نہیں؛ چنانچہ حکومت کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک سے دیوالیہ پن کے جن خطرات کے ٹل جانے کی امید کی جارہی ہے وہ مستقل طور پر ٹلے رہیں۔ اس کے لیے حکومت کو غیر پیداواری اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرنا ہوگی۔ ہمارے ہاں بے مقصد کاموں میں سرمایہ خرچ کرنے کی بری روایت نے ملکی معیشت کو بے پناہ مالی نقصان پہنچایا ہے۔ کفایت شعاری کا چلن ہمارے ہاں ہے ہی نہیں۔ اگر حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات کم کرے تو متعدد مدات میں اربوں روپے کی بچت ممکن ہے۔ سرکاری اخراجات میں کفایت شعاری اختیار کرتے ہوئے حکومت کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے زیادہ وسائل مختص کرنے چاہئیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ قرض بحالی کے لیے حکومت نے جو شرائط قبول کی ہیں ان سے عوام پر خاصا مالی بوجھ پڑا ہے؛ تاہم حالیہ سیلابوں کے بعد ضروری ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے بعض شرائط میں رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ صوبوں کی جانب سے پہلے ہی اس حوالے سے مطالبات سامنے آ چکے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ سیلاب سے متاثرہ صوبوں کے لیے حالات میں فیصلہ کن تبدیلی آئی ہے اور بڑے پیمانے کی اس تباہی کے باوجود صوبوں کے لیے سرپلس بجٹ کی شرط پوری کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا۔ قرض کی شرائط میں نرمی عالمی طریقہ کار سے متصادم نہیں اس سلسلے میں ہمارے پاس کورونا وبا کی نظیر موجود ہے کہ متاثرہ ممالک کو قرض کی واپسی میں کئی رعایتیں دی گئیں؛ چنانچہ درپیش حالات کی بنا پر عالمی مالیاتی فنڈ سے شرائط میں رعایت کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی جو ٹیلی فونک گفتگو لیک ہوئی ہے جس میں بظاہر وہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے وزرائے خزانہ کوکچھ ہدایات دے رہے ہیں یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ٹیکنو کریٹس جو متعلقہ معاملات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں وہ بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے چکر میں اصولوں سے پہلو تہی کر گزرتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں نے جس تناؤ کو اپنی سیاست کے لیے ایک خوبی سمجھ لیا ہے دراصل سیاسی رواداری سے عدم مطابقت کا نتیجہ ہے۔ انتہائی نوعیت کے قومی المیے کی اس صورتحال میں بھی قومی مقاصد کی خاطر سیاسی ہم آہنگی کیوں نظر نہیں آتی؟
بہر حال آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی پہ خوش ہوتے وقت یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ قرض ہمیں واپس بھی کرنا ہے، اور وہ بھی ڈالرز میں۔ مگر ڈالر کی قیمت بین الاقوامی طور پر بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ گزشتہ دو برس کے دوران کووڈ 19کی مہلک وبا اور اس سال فروری سے جاری روس یوکرین جنگ نے عالمی معیشت کو بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے سری لنکا سمیت بعض ممالک دیوالیہ ہو گئے یا ہونے کے قریب ہیں جبکہ متعدد معاشی پہیہ رواں دواں رکھنے کے لیے سخت گیر فیصلے کرنے پر مجبور ہیں جس سے مہنگائی کے کئی سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے اور کروڑوں افراد بیروزگار ہو چکے ہیں۔ معدنی تیل کی قیمتوں میں شدید اتار چڑھائو کا سب سے زیادہ اثر پاکستان جیسی کمزور معیشتوں پر پڑا ہے جن کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکی مرکزی بینک نے آنے والے دنوں میں ایک مرتبہ پھر اپنی شرح سود بڑھانے کا عندیہ دیا ہے جس پر ردعمل دیتے ہوئے چینی معاشی مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ اس امریکی اقدام سے ترقی پزیر ممالک کی معاشی صورتحال مزید بگڑ جائے گی تاہم امریکی مالیاتی حکام کا نظریہ ہے کہ شرح سود میں اضافے کا رجحان اس وقت تک برقرار رہنا چاہیے جب تک کساد بازاری پر مکمل قابو نہیں پا لیا جاتا۔ یاد رہے کہ گزشتہ تین چار ماہ کے دوران امریکی مالیاتی پالیسیوں میں بار بار ردوبدل کے باعث خود اس کے ہاں مہنگائی اور بیروزگاری کی حالیہ سطح گزشتہ 60سال کی ہر حد عبور کر چکی ہے۔ امریکی مرکزی بینک کے اس اعلامیہ سے قبل عالمی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اس ممکنہ اقدام کی صورت میں بہت سے ملکوں سے ڈالر نکل کر امریکی بینکوں میں چلے جائیں گے جس سے ان کی معیشتیں تباہ ہو کر رہ جائیں گی۔ یہ ایک نازک معاملہ ہے، جس پہ پاکستان جیسے کمزور کرنسی کے حامل ملک کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔