ہادی مطر ملعونوں کو واصلِ جہنم کرتے رہیں گے؟

957

مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کا کہنا تھا کہ ختم ِ نبوت کے قانون کے تحت تمام انبیائے کرامؑ کی توہین کا خاتمہ ہوتا ہے اس قانون پر عملدرآمد میں رکاٹ جرائم کی پروش، عام لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ بد قسمتی آج کا یورپ، امریکا اور مغرب کی حکومتیں انبیائے کرامؑ کی توہین کرنے والوں کو سزا کے بجائے تحفظ فراہم کرتی ہیں جس کی وجہ سے چوبیس سالہ ہادی مطر جیسے نوجوانوں کو از خود کچھ کرنے کی لازمی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سب کچھ روکے نہیں رک سکتا اور دنیا بھر کے ہادیِ مطر ملعونوں کو مارتے رہیں گے۔
1998ء میں ایران کے اس وقت کے صدر محمد خاتمی نے کہا تھا کہ ان کا ملک اب ملعون سلمان کے قتل کی حمایت نہیں کرتا۔ لیکن یہ فتویٰ سرکاری طور پر واپس نہیں لیا گیا ہے۔ ایران کے موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے چند سال پہلے کہا تھا کہ ’’سابق سپریم لیڈر آیت اللہ علی خمینی کا ملعون سلمان کے قتل کا فتویٰ اس گولی کی طرح ہے جو اس وقت تک آرام نہیں کرے گی جب تک وہ اپنے ہدف کو نہ لگ جائے‘‘۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ سابق صدر محمد خاتمی کا بیان ایران کا سرکاری بیان نہیں تھا۔ سابق سپریم لیڈر آیت اللہ علی خمینی کا فتویٰ آج بھی ایران کی سرکاری پالیسی کا حصہ ہے۔
العربیتہ اردو کا کہنا ہے کہ چونکہ ملعون سلمان کی ’شہرت‘ کے ساتھ ایران کے سابق سپریم لیڈر آیت اللہ علی خمینی کا فتویٰ بھی موجود ہے۔ جس میں خمینی نے ملعون سلمان کو ’شیطانی آیات‘ کتاب لکھنے پر واجب القتل قرار دیا تھا اور ایران نے رشدی کے قتل پر تیس لاکھ ڈالرکا انعام بھی رکھا ہے۔ چنانچہ رشدی پر قاتلانہ حملے پر ایران کی طرف سے رد عمل فطری بات ہے۔ ایرانی جوہری مذاکراتی ٹیم کے مشیر محمد مراندی نے ایک ٹویٹ میں رشدی پر حملے پر حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب تہران واشنگٹن جوہری پروگرام معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ہماری رائے ہے اس سلسلے میں مزید تفصیل کی ضرورت ہے لیکن بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ سابق سپریم لیڈر آیت اللہ علی خمینی کا فتویٰ بھی موجودہ ایرانی حکمرانوں کے لیے پرانا ہوگیا ہے۔ چہرہ ڈھانپے شخص جب 75 سال قبل ہندوستانی مسلمان ماں باپ کے ہاں پیدا ہونے والے ملعون سلمان پر حملہ آور ہوا تو اس نے رشدی پر چاقو سے 10 سے 15 وار کیے۔ یہ سب صرف بیس سیکنڈز میں ہوا جس کے نتیجے میں سلمان رشدی شدید زخمی ہو گیا۔ ملعون اس وقت نیویارک کے شاتاقوا انسٹی ٹیوٹ آف لیٹرز میں فنی آزادی پر اپنے لیکچر دینے کی تیاری کر رہے تھے۔ لیکن اس کے بعد بھارت کے میڈیا نے ایران کے بجائے حملہ آور کو پاکستانی قرار دینے کے لیے اپنی کوشش شروع کر دی ہیں لیکن پاکستانی میڈیا پر تو تو میں میں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے۔
جولائی 1991 میں ناول کے جاپانی مترجم ہیتوشی ایگاراشی کو جاپان میں چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا اور اس کا اطالوی مترجم ایٹور کیپریولو میلان میں چاقو کے حملے میں زخمی ہوا تھا۔ اکتوبر 1993 میں، شیطانی آیات کے نارو ے کے پبلیشر ولیم نیگارڈ کو اوسلو میں گولی مار کر زخمی کر دیا گیا تھا۔
چوبیس سالہ ہادی مطر نیو یارک کی پڑوسی ریاست نیو جرسی کے شہر فیئر ویو کا رہائشی ہے۔ یارون کے میئر علی تحفی نے ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز کو بتایا کہ مطر امریکا میں لبنانی والدین کے ہاں پیدا ہوا، جنہوں نے جنوبی لبنان کے یارون سے ہجرت کی تھی۔ این بی سی نیوز کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مطر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شیعہ فرقے سے تعلق رکھتا ہے اور ایرانی پاسدارانِ انقلاب (IRGC) سے متاثر تھا، جو ملک کی حفاظت کے لیے پرعزم ایرانی مسلح افواج کی نظریاتی طور پر چلنے والی شاخ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مطر، رشدی کے خلاف قتل کا فتویٰ جاری ہونے کے تقریباً ایک دہائی بعد پیدا ہوئے اور خود آیت اللہ خمینی کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ تاہم، مطر کے سیل فون میں جو ثبوت ملے ہیں وہ اسے پاسداران انقلاب سے جوڑتے ہیں، ثبوت بتاتے ہیں کہ شاید وہ فتوے کے زیرِ اثر کارفرما تھا۔
ایران کے حمایت یافتہ لبنانی مسلح گروپ حزب اللہ کے ایک اہلکار نے ہفتہ (13 اگست) کو رائٹرز کو بتایا کہ گروپ کے پاس رشدی پر حملے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ ’’ہم اس موضوع کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، لہٰذا ہم کوئی تبصرہ نہیں کریں گے‘‘۔ رائٹرز کی رپورٹ میں یارون کے میئر علی تحفی کے حوالے سے بھی کہا گیا ہے کہ ان کے پاس اس بارے میں ’’بالکل کوئی معلومات نہیں ہیں‘‘ کہ آیا مطر یا اس کے والدین حزب اللہ سے وابستہ تھے یا ان کی حمایت کرتے تھے۔
یہ کہانی پل دو پل کی بات نہیں حقیقت میں پاؤ صدی کا قصہ ہے۔ 26 ستمبر 1988ء کو شیطانی آیات نامی ناول نشر ہونے پر مسلمان، عیسائی اور یہودیوں کی طرف سے بہت سارے اعتراضات ہوئے، جبکہ بھارت، بنگلا دیش، پاکستان، اٹلی، کینیڈا اور مصر سمیت ساری دنیا میں ملعون سلمان اور اس کے ناول کے خلاف مظاہرے ہوئے ایران سمیت پوری دنیا کے اسلامی، عیسائی اور یہودی ملعون کے ناول پر سخت اعتراض کیا لیکن عالم ِ اسلام کے علماء نے ملعون سلمان کو قرآن کریم کا انکار کرنے والوں میں سے قرار دیا ہے۔ شیطانی آیات (The Satanic Verses) بھارتی نژاد برطانوی ناول نگار ملعون اس ناول کو کہا جاتا ہے جس کا مرکزی خیال غرانیق کی روایت کی طرف اشارہ ہے جسے مسلمانوں نے غیر معتبر قرار دیا اور غرانیق کا افسانہ کے نام سے مشہور ہے۔ عالم ِ اسلام کے بہت سارے ناقدین اور قارئین کی نظر میں اس ناول میں پیغمبر کریمؐ کو ’’ماہوند‘‘ کی توہین کرنے والا قرار دیتے ہوئے قرآن کریم کو بھی داستان، افسانہ اور شیطانی خیالات پر مشتمل قرار دینے کے ساتھ ساتھ پیغمبر اسلام کے بعض اصحاب کو بھی توہین آمیز القاب سے یاد کیا ہے اور ازواج مطاہرات پر بھی الزام لگایا ہے۔
اسی طرح ویٹی کن کے سرکاری اخبار میں سلمان رشدی اور اس کی کتاب کی مذمت کی گئی۔ افرام شابیرا اور اشکنازی یہودی خاخام نے اسرائیل میں اس کتاب کی نشر و اشاعت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ 14 فروری 1989 کو جبکہ دوسرے پیغام میں سلمان رشدی کے توبہ کو بھی غیر قابل قبول قرار دیا۔ امام خمینی کے فتوے کے بعد ملعون سلمان مخفی زندگی کرنے پر مجبور ہوگیا اور مسلمانوں کے احساسات کو ٹھیس پہنچانے کے بعد پھر معذرت خواہی بھی اس کے پھانسی کے حکم سے جان چھڑانے میں کار آمد ثابت نہیں ہوئی۔ لیکن مغرب کی مکاری اور اسلام و مذاہب دشمنی نے پوری دنیا کو انتہا پسند بنا دیا جس میں روز بروز اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔