بیجنگ، واشنگٹن تصادم کے دہانے پر

800

چین نے کہا ہے کہ وہ تائیوان کے سامنے اپنے ساحل پر ’لائیو فائر‘ فوجی مشقیں کر رہا ہے۔ یہ اعلان نینسی پیلوسی کے ممکنہ دورہ تائیوان کے باعث چین اور امریکا کے مابین بڑھتے تناؤ کے دوران کیا گیا ہے۔ چین نے 30جولائی ہفتے کے دن آبنائے تائیوان میں فوجی مشقیں کرنے کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس اعلان سے قبل بیجنگ نے واشنگٹن کو خبردار کیا تھا کہ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے اپنے دورہ ایشیا کے دوران اگر تائیوان گئیں تو اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔ چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شینہوا کے مطابق چینی فوج صوبہ فوجیان کے پنگٹن جزیروں کے قریب 30جولائی کی صبح آٹھ بجے سے شام نو بجے تک ’لائیو فائر‘ فوجی مشقیں جاری رکھی ہیں۔
چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے ساتھ گزشتہ ہفتے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران نینسی پلوسی کے تائیوان کے ممکنہ دورے کے حوالے سے خبردار کیا تھا یہ امریکا کو چین کی جانب سے کھلی دھمکی تھی۔ شی جن پنگ نے جو بائیڈن سے کہا تھا کہ واشنگٹن کو ’ون چائنا‘ کے اصولوں پر قائم رہنا چاہیے اور اگر کسی نے آگ کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی تو وہ تباہ ہوجائے گا۔ جو بائیڈن نے چینی صدر شی جن پنگ کو جواب میں کہا تھا کہ تائیوان پر امریکی پالیسی میں تبدیلی نہیں ہوئی اور واشنگٹن، موجودہ صورتحال میں تبدیلی یا تائیوان میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی یکطرفہ کوششوں کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے ایشیا کا دورہ شروع کردیا ہے تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ تائیوان بھی جائیں گی کہ نہیں۔ چین نے ان کے دورہ تائیوان پر خبردار کرتے ہوئے اسے اشتعال انگیز قرار دیا تھا۔ رائٹر کے مطابق پلوسی کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ایشیائی ملکوں کے دورے پر روانہ ہورہی ہیں۔ اس دوران وہ سنگاپور، ملائشیا، جنوبی کوریا اور جاپان جائیں گی۔ اس بیان میں تائیوان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ بعض میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ پلوسی ممکنہ طور پر تائیوان کا دورہ کریں گی لیکن اب تک اس کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ ان خبروں کے بعد واشنگٹن اور بیجنگ میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ بیجنگ کسی بھی غیر ملکی سیاست دان کے تائیوان کے دورے کو اشتعال انگیزی کے طور پر دیکھتا ہے۔ تائیوان میں 1949 میں اس کی آزادی کے بعد ہی سے ایک خود مختار جمہوریت ہے تاہم بیجنگ اسے چین کا حصہ قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن اسے اپنے ملک میں ضم کرلے گا۔
پیلوسی نے اپنے بیان میں کہا، ’’آج ہمارا کانگریسی وفد انڈو پیسفک خطے کے دورے پر روانہ ہورہا ہے جو خطے میں ہمارے اتحادیوں اور دوستوں کے ساتھ امریکا کی مضبوط اور غیر متزلزل وابستگی کی تصدیق ہے‘‘۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دورے کے دوران انڈو پیسفک خطے میں باہمی سیکورٹی معاملات، معاشی شراکت داری اور جمہوری حکمرانی کے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ وفد میں ایوان کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ گریگوری میکس بھی شامل ہیں۔
نینسی پیلوسی کے دورے سے متعلق یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب ایک روز قبل ہی چین نے تائیوان کے بالمقابل اپنے ساحل پر فوجی مشقیں شروع کی ہیں۔ اسے امریکا کے لیے ممکنہ وارننگ قرار دیا جارہا ہے۔ چینی بحریہ چین اور تائیوان کے درمیان واقع سمندری علاقے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے فوجی مشقیں کر رہی ہے۔ چین کے روزنامہ پیپلز ڈیلی کے مطابق چینی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ چینی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے بھی تائیوان کے قریب پروازیں کی ہیں۔ ’چین کی فضائیہ قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے پختہ ارادہ، مکمل اعتماد اور صلاحیت کی حامل ہے۔ اور بیجنگ قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی مکمل حفاظت کرے گا‘۔ امریکانے اپنا طیارہ بردار جنگی جہاز یو ایس ایس رونلڈ ریگن گزشتہ ہفتے جنوبی چین سمندر میں بھیجا تھا جس میں ایک سوا سے زائد جنگی جہاز ہیں جن میں سُپر سونک میزائل بھی ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس جنگی جہاز کو بھیجنے کا فیصلہ بہت پہلے کیا گیا تھا اور یہ ایک معمول کی فوجی مشق تھی۔ امریکا کو تائیوان کے حوالے سے فکر مندی ہے یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے بعد اس تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے کہ چین بھی تائیوان کے حوالے سے اسی طرح کا قدم اٹھا سکتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان 15 نومبر 2021 کو ہونے والی پہلی ورچوئل ملاقات سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں تھیں۔ بائیڈن انتظامیہ کے آنے کے بعد سے دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی یہ پہلی ویڈیو ملاقات تقریباً ساڑھے 3 گھنٹے طویل تھی۔ اس ملاقات میں ان تمام معاملات پر بات کی گئی جو ان دونوں عالمی طاقتوں کے مابین مقابلے، اختلاف، تعاون اور ٹکراؤ کی وجہ ہیں۔ ان معاملات میں تجارت، تائیوان، ایران، شمالی کوریا، ٹیکنالوجی، ماحولیاتی تبدیلی، انسانی حقوق اور اسٹرٹیجک ہتھیار شامل تھے۔ اگرچہ یہ ملاقات بہت زیادہ نتیجہ خیز تو ثابت نہیں ہوئی لیکن یہ بات واضح تھی کہ دونوں جانب سے یہ ملاقات اعلیٰ ترین سطح پر کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ دونوں ممالک کے درمیان موجود تناؤ کو کم کیا جاسکے۔ گزشتہ کچھ ماہ کے دوران ان دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے اور تعلقات بہت ہی نچلی سطح پر آچکے ہیں۔ بائیڈن اور شی جن پنگ کے درمیان 2021ء کو ہونے والی ملاقات اس بات کا اقرار ضرور تھی کہ دونوں ممالک کو تناؤ میں کمی لانی ہوگی اور بقول بائیڈن ’سخت مقابلے‘ میں رہتے ہوئے تعاون کے شعبوں کو تلاش کرنا ہوگا۔ ملاقات کے آغاز ہی میں صدر بائیڈن نے صدر شی سے کہا کہ ذمے داری کا تقاضا ہے کہ ان کے درمیان جاری مقابلہ ’ارادی یا غیر ارادی طور پر تصادم کی صورت اختیار نہ کرے‘۔ لیکن جولائی 2022ء کی ملاقات میں یہ سب کچھ بہت کھل کر سامنے آگیا ہے اور اب تصادم ہی تصادم ہی نظر آرہا ہے۔ اس مرتبہ یہ تصادم سُپر سونک ہو گا جس میں ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آرہی ہے۔
تناؤ میں کمی کی کوششیں عالمی برادری کے لیے بھی ایک اچھی خبر ہوگی۔ ان دونوں طاقتوں کے درمیان جاری کشیدگی کئی ممالک، عالمی معیشت اور بین الاقوامی استحکام کو متاثر کر رہی تھی۔ دنیا بھر کے ممالک نہ اس کشیدگی کی زد میں آنا چاہتے تھے اور نہ ہی دونوں طاقتوں میں سے کسی ایک کے مشکل انتخاب میں پڑنا چاہتے تھے۔ ان ممالک میں امریکا کے یورپی اتحادی بھی ہیں جن کے چین کے ساتھ اہم معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ دوسری جانب چین نے ہمیشہ ہی سے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ تعلقات میں استحکام اور بہتری لانا چاہتا ہے، لیکن ساتھ ہی چین نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ وہ اشتعال انگیز امریکی پابندیوں کے خلاف شدید مزاحمت کرے گا۔ صدر شی نے صدر بائیڈن کو بتایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں آپس میں رابطے اور تعاون میں اضافہ کریں۔ لیکن بائیڈن نے کرسی صدارت سنبھالنے کے بعد ہی سے چین کے حوالے سے سخت رویہ اختیار کیا ہے۔ یہ رویہ ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور سے کچھ مختلف نہیں ہے جس میں امریکا کی جانب سے چینی برآمدات پر بڑے پیمانے پر تجارتی محصولات عائد کیے گئے۔ ساتھ ہی چین کے خلاف جارحانہ بیانیہ اختیار کیا گیا جسے چین نے اشتعال انگیزی کے طور پر دیکھا۔ ان سخت اقدامات کی بنیاد دراصل چین کی معاشی، عسکری اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑھتی قوت کے حوالے سے امریکا کا خوف ہے۔ بائیڈن کا مؤقف امریکا میں اس سیاسی اتفاق رائے کا مظہر ہے جس کے تحت چین کو ایک ایسا حریف سمجھا جاتا ہے کہ جس کا نہ صرف مقابلہ کرنا ہے بلکہ اسے محدود بھی رکھنا ہے۔