معاشی ابتری کی گونج ہمدرد شوریٰ میں

482

پاکستان کی معاشی صورت حال پر سب پریشان ہیں۔ حکومت کے پاس اس مسئلے کا حل قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینا ہے۔ یہاں تک کہ وزیر خزانہ اس قدر بے معنی اور بے مقصد بات کرگئے کہ قرض لینا ہے تو ملکی خود داری کی بات نہ کریں۔ یہ کیسے حکمران ہیں جو ملک کو بھکاری، غیر خوددار اور بے غیرت بنانے کا علی الاعلان اعتراف کررہے ہیں۔ ان حالات سے سب پریشان ہیں لیکن اس پر ہمدرد شوریٰ نے ایک سنجیدہ مجلس کا انعقاد کیا۔ ہمدرد فائونڈیشن کی چیف متولیہ محترمہ سعدیہ راشد کی سرپرستی میں ہمدرد کے ہیڈ آفس میں ہمدرد شوریٰ کا اجلاس ہوا۔ جسٹس حاذق الخیری اس مجلس کے نگراں اور ہمدرد شوریٰ کے صدر ہیں۔ اجلاس کا موضوع بھی ملکی ابتر معاشی صورت حال، بہتری کیسے ممکن ہے۔ اس حوالے سے معروف بزنس مین عبدالحسیب خان، پاک قطر بزنس کونسل اور ایف پی سی سی آئی کے چیئرمین کے محمود ارشد، ڈی ایچ اے کے ظفر اقبال، ہمدرد یونیورسٹی کے وائس چانسلر شعب الحسن، جامعہ کراچی سے ڈاکٹر تنویر خالد اور دیگر نے خطاب کیا۔ تقریباً سب نے ایک ہی بات کہی کہ مسئلہ پاکستان کا نہیں ہے۔ وسائل سے مالا مال ملک ہونے کی بات کی گئی شعبوں کا ذکر کیا گیا کہ ان کے ذریعے ملکی معیشت سنبھل سکتی ہے۔ اس بات پر سب کا اتفاق تھا کہ ہم مسلمان ہیں ملک اسلامی جمہوریہ ہے تو پھر ہمیں اللہ کے احکامات کے مطابق حکومت و معیشت چلانی چاہیے۔ حسیب خان نے تو چیلنج کیا کہ مجھے دو سال کے لیے بلوچستان کی زمین دے دیں پھر دیکھیں میں بڑے بڑے ملکوں کی مارکیٹ خراب کردوں گا۔ بس میرے زندہ واپس آنے کی ضمانت حکومت دے دے۔ یہی بات کم و بیش دوسرے پیرایہ میں محمود ارشد نے کہی کہ ملک میں وسائل بہت ہیں اگر ہم ملک کو اسلامی جمہوریہ کی جگہ کچھ اور قرار دے دیں اور خود کو مسلمان نہ کہیں تو پھر جو چاہے کریں۔ تمام شرکائے مجلس کا اس امر پر اتفاق تھا کہ پہلے ہم مسلمان ہیں اس کے بعد کچھ سوچیں۔ یہ تمام لوگ اصل مسئلے کے قریب سے ہو کر دوسری طرف گھوم جاتے۔ یعنی وسائل اور دوسرے ذرائع کی باتیں کرنے لگتے۔ ذرائع تو بہت سے ایسے ہیں جو اب بھی ہمارے علم میں نہیں۔ اصل بات کی طرف صرف دو جملوں میں توجہ دلانا مقصود ہے۔ وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ بند کردی جائے، استغفار کیا جائے اور پھر دیکھیں اللہ کا وعدہ کتنا سچا ہے۔ پیروں کے نیچے سے رزق ابلے گا اور آسمان سے برسے گا۔ جو ہے اس میں برکت ہوگی اور جو چاہیے وہ ملے گا۔ لیکن اس سارے کام میں رکاوٹ کون ہے۔ یہ بھی ایک رحمت ہے کہ ملک کے 22 کروڑ عوام کی غالب اکثریت اس گھنائونے کام کے حق میں اپنی آزاد مرضی سے نہیں ہے۔ وہ ریاست کے اداروں اور ان حکمرانوں کے ہاتھوں مجبور ہیں جو سودی معیشت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس کے حصہ دار ہیں اس کے بغیر ان کا گزارا نہیں ہے اور یہ لوگ پانچ فی صد بھی نہیں ہیں۔ اللہ نے سود کو اپنے اور اپنے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے اور ہمارے حکمران اب تک کفار قریش کی طرح کے سوالات کررہے ہیں کہ ذرا نشانی تو بتائو بیل کیسا ہو۔ ربا اور تجارت کا فرق تلاش کررہے ہیں۔ آخر کب تک، عدالت عظمیٰ، شریعت عدالت، عدالت عظمیٰ میں اپیل۔ شریعت عدالت میں دوسری اپیل چار مرتبہ تو سیر حاصل بحث ہوچکی ایک ایک چیز بتادی گئی اس کے باوجود معیشت کی بحالی کے لیے سود کے لین دین ہی پر اصرار ہے۔ مومن کی خصوصیت تو یہ ہے کہ کوئی غلطی ہوجائے تو اس پر مصر نہیں ہوتے بلکہ توبہ کرتے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں۔
حال ہی میں اسٹیٹ بینک اور چار دیگر بینکوں نے سود کے حق میں پھر اپیل کردی ہے۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کو تو اپنے چارٹر کی بھی فکر ہوگی اس لیے اس کے ترجمان نے ایک بیان جاری کیا کہ اسٹیٹ بینک نے وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے پر عدالت عظمیٰ سے رہنمائی مانگی ہے۔ یعنی اللہ کے واضح احکامات کے باوجود رہنمائی عدالت عظمیٰ سے مانگی جارہی ہے جو خود علما سے رہنمائی لیتی ہے۔ عجیب و غریب منطق ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا خیر مقدم بھی کیا جارہا ہے اور کہا یہ گیا ہے کہ ہم فیصلے کے عملی حصے کو سراہتے ہیں۔ لیکن اگلے جملے میں اسٹیٹ بینک کے تضاد کا کھلم کھلا اعلان ہوتا ہے کہ اسٹیٹ بینک ملک کے مالی شعبے جو عالمی مالی نظام کے حصے کے طور پر کام کرتا ہے کہ استحکام اور سلامتی کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ اسلام کے احکامات کی تعمیل کو یقینی بنانے کا بھرپور عزم رکھتا ہے۔ خصوصاً ربا کے حوالے ہے۔ اس کے بعد بینک نے ملک میں اسلامی بینکاری کی بات کی ہے۔ لیکن یہ بات کون بتائے گا کہ عالمی مالی نظام جو سود پر مبنی ہے کے حصے کے طور پر کام کرنے والا ادارہ ربا کے خلاف کیسے کام کرے گا۔ اور عالمی مالی نظام بھی چلے اور شریعت کے احکامات پر بھی عمل ہوجائے یعنی خود بھی راضی اور شیطان بھی خوش۔ یہ کس کو دھوکا دے رہے ہیں۔ سب مل کر توبہ کریں اور اللہ اور رسولؐ سے جنگ بند کریں۔ ابتر معیشت بہتر ہوجائے گی۔ ایمان، یقین اور آزمائش شرط ہے۔ یہ جو استحکام اور سلامتی کی باتیں کی جاتی ہیں سود کے ساتھ نہ نظام مستحکم ہو سکتا ہے نہ سلامتی رہے گی، ہر چیز تو بھگت چکے۔