چراغ ِ عدل

338

کبھی کبھی تو یہ گمان حقیقت کے پیراہن میں دکھائی دیتا ہے کہ چراغ ِ عدل کا تیل ختم ہو گیا ہے شاید یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ چراغ ِ عدل میں کبھی تیل تھا ہی نہیں۔ پاکستان پون صدی کی سرحد عبور کر کے پوری صدی میں داخل ہونے جا رہا ہے مگر نظام ِ عدل پر نظریہ ٔ ضرورت ہی حاوی رہا ہے شاید کہنے والے درست ہی کہتے ہیں کہ نظریہ ٔ ضرورت دراصل جج اور جسٹس صاحبان کی ضروریات کو پورا کرنے کا نام ہے پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اس کے قیام کا مقصد اسلامی نظام نافذ کر کے اس پر مکمل طور پر عمل کرنا تھا مگر قیام پاکستان کے بعد اس مقصد کو بھلا دیا گیا جو بھی برسر اقتدار آیا اس نے اپنی ضروریا ت کی تکمیل کے لیے اپنی طرز حکمرانی کو فروغ دیا۔
عزت مآب جسٹس جواد الحسن متعدد بار انتہائی دکھ کے ساتھ یہ اظہار کر چکے ہیں کہ دنیا کی کوئی بھی عدالت ثبوت کے بغیر کسی مقدمے کی سماعت نہیں کرتی مگر وطن عزیز میں ایسی کوئی پابندی ہی نہیں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایسا کیوں ہوتا ہے حالاں کہ یہاں بھی انگریز کا قانون ہی نافذ العمل ہے مگر المیہ یہی ہے کہ عدالتوں میں عمل درآمد انگریز کے قانون پر ہوتا ہے نہ اسلام کے نظام پر، بعض اداروں نے تو قانون کو چوں چوں کا مربہ بنا دیا ہے انگریز کا قانون جو غالباً 1936نافذ ہوا تھا اس کے مطابق سرحدی علاقے کی زمینیں سرحد کے تحفظ پر تعینات ملازمین کا حق ہے انگیز کے دور میں اس پر بڑی خوشنودی سے عمل درآمد بھی ہوتا تھا مگر پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اس قانون کا حلیہ اس حد تک بگاڑ دیا گیا ہے کہ اب سرحد پر فرائض منصبی ادا کرنے والے رینجرز کے جوانوں کو اس حق سے محروم کر دیا گیا ہے اور اب سرحدی علاقوں کی زمینیں بھی فوجی افسران کو الاٹ کی جاتی ہیں۔
عدالت عظمیٰ جو اپنی وجود کا احساس دلانے کے لیے ازخو د نوٹس لینے میں خاصی مشہور ہو چکی ہے اس معاملے میں اس نے بھی چپ شاہ کا روزہ رکھا ہوا ہے قانون کے بارے میں شد بد رکھنے والے کہتے ہیںکہ ہمارے قانون میں بھی فوجیوں کو زرعی زمین الاٹ کرنے کا حق نہیں اس کے باوجود زرعی زمینیں الاٹ کی جاتی ہیں یہ کیسی منافقت ہے کہ رینجرز کو پاکستان کی اولین دفاعی لائن کہا جاتا ہے مگر جب مراعات دینے کا وقت آتا ہے رینجرز کے جوانوں کو سویلین قرار دے دیاجاتا ہے۔
رینجرز کا ایک جوان 1965 کی جنگ میں زخمی ہوگیا تھا علاج کے بعد زخم مندمل ہو گیا مگر آٹھ دس برس کے بعد زخم پھر ہرا ہو گیا دراصل جنگ کے دوران بم کے ذرات اس کے پائوں میں گھس گئے تھے ہمیں بم کا نام یاد نہیں آرہا ہے غالباً اس کا نام نیپام بم تھا اس کے ذرات انسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد غیر فعال رہتے ہیں اور پھر آٹھ دس سال کے بعد متحرک ہونے لگتے ہیں رینجرز کا جوان بھی اس صورت حال سے دو چار ہو ا تھا اس پر ڈریسنگ اور اینٹی بائیوٹیک ادویات کا اثر نہیں ہو رہا تھا بلکہ وہ ادویات اس کے زخم کی پیپ میں خارج ہو رہی تھیں زخم بڑھتا ہی جا رہا تھا مختلف ٹیسٹ لینے کے بعد ڈاکٹروں نے فیصلہ لیا کہ اس کے پائوں کا پنجہ کاٹ دیا جائے مگر نوجوان اس پر آمادہ نہ ہوا علاج ہوتا رہا مگر صحت یابی کے اثرات دور دور تک نہ تھے ڈاکٹروں کی متفقہ رائے تھی کہ اگر ٹخنے تک پائوں نہ کاٹا گیا تو پوری ٹانگ متاثر ہو سکتی ہے جوان پھر بھی راضی نہ ہوا بالآخر اس کی پوری ٹانگ کاٹنا پڑی اور اس کی ڈیوٹی درزی خانے میں لگا دی گئی کچھ عرصے کے بعد دوسری ٹانگ کے پنجے کا زخم بھی ہرا ہو گیا یوں رفتہ رفتہ اس کی پوری ٹانگ اس لپیٹ میں آگئی اور اسے بھی کاٹنا پڑا رینجرز کے جوان کو فوجی مراعات نہ دی گئی اور جواب یہ تھا کہ اس کی ٹانگیں دوران جنگ نہیں کاٹی گئی تھی حالاں کہ وہ زخمی جنگ کے دوران ہی ہوا تھا۔
دنیا بھر کی عدالتیںاز خود نوٹس لیتی ہیں مگر ان کا یہ اقدام ملک و قوم کی بھلائی کے لیے ہوتا ہے وطن عزیز کی بد نصیبی یہ ہے کہ ہماری عدالت عظمیٰ جب بھی ازخود نوٹس لیتی ہے اپنی طاقت کا اظہار کرتی ہے عزت مآب چیف جسٹس اسلامی جمہوریہ پاکستان نے گزشتہ دنوں اپنے ایک ساتھی جسٹس کی تجویز پر ایک مقدمے کا ازخود نوٹس لے کر سماعت کی تھی محترم جواد الحسن بغیر ثبوت کے کسی مقدمے کی سماعت کو عدالت کے ماتھے کا داغ قرار دیتے ہیں مگر اس داغ کو مٹانے کی جدوجہد کوئی بھی نہیں کرتا محترم جواد الحسن چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ تجویز دے سکتے ہیںکہ ثبوت کے کسی بغیر مقدمے کے سماعت نہ کی جائے بلکہ دیگر مقدمے کی سماعت سے پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ مقدمہ قابل سماعت ہے یا نہیں قوم پر احسان عظیم ہو گا۔