جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات

666

خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں جنگلات میں آتشزدگی کے پے در پے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق صرف اس سال مئی کے مہینے میں خیبر پختون خوا کے 20 اضلاع کے پہاڑوں میں آگ لگنے کے 313 واقعات پیش آچکے ہیں۔ ان واقعات کے باعث اب تک نہ صرف کروڑوں روپے مالیت کے درخت راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں بلکہ آتشزدگی کے باعث جہاں جنگلی حیات کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے وہیں ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جبکہ ایک تازہ واقعے میں ضلع شانگلہ کی تحصیل چکیسر کے گائوں علی جان کاپڑئی میں پہاڑوں پر لگنے والی آگ نے بے قابو ہوکر قریبی آبادی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جس میں 4 افراد کے زندہ جل کر جاں بحق ہونے اور پانچ کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ ادھر سوات میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ پہاڑوں اور جنگلات میں آگ لگنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر درخت اور پودے جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق بریکوٹ، پھٹانے مینگورہ، سیگرام اور چار باغ کے پہاڑوں میں آگ لگ گئی جو ہوا میں تیزی کے ساتھ گرد ونواح کے علاقوں تک پھیلتی چلی گئی جس نے درختوں اور پودوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بڑی تعداد میں پودے اور درخت جل گئے۔ خیبر پختون خوا کے ضلع لوئردیر سے بھی جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہاں پر آگ پر قابو پانے کے لیے فائر بریگیڈ کے عملے کے علاوہ مقامی رضاکار بھی متاثرہ مقام پر آگ بجھانے میں مصروف رہے۔ اسی طرح ہری پوری میں غازی کے جنگلات میں بھی خطرناک آگ بھڑکنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
صوبہ بلوچستان کے پختون علاقوں شیرانی اور کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران لگنے والی شدید آگ کے واقعات کے بعد اب خیبر پختون خوا کے پہاڑی علاقوںکے جنگلات میں لگنے والی آگ قدرتی حادثہ ہے یا پھر یہ پختون علاقوں کے قیمتی جنگلات کو ملیامیٹ کرنے کی کسی منظم سازش کا حصہ ہے گو اس حوالے سے فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن جس سرعت اور پے در پے آتشزدگی کے واقعات سامنے آئے ہیں اس کے نتیجے میں مقامی آبادی میں تشویش کا پیدا ہونا فطری امر قرار دیا جارہا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ بونیر، دیر، شانگلہ، سوات اور تورغر کے پہاڑوں پر کھڑے گھنے اور قیمتی جنگلات جل رہے ہیں لیکن اس ضمن میں صوبائی وزیر جنگلات کی پراسرار خاموشی خود کئی سوالات کو جنم دینے کا باعث بن رہی ہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ آتشزدگی سے جو نقصان ہوا ہے اور اس سے لوگوں میں جو خوف وہراس پھیلا ہے اس کے سدباب کے لیے تادم تحریر حکومتی سطح پر کوئی بڑی سرگرمی نظر نہیں آ رہی ہے۔ جنگلات میں آتشزدگی کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس آگ پر قابو پانے کے لیے محکمہ جنگلات کے پاس نہ تو تربیت یافتہ عملہ ہے اور نہ ہی اس حوالے سے ضروری وسائل اور تکنیکی آلات دستیاب ہیں اور نہ ہی حکومت کی طرف سے ابھی تک اس طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں کہ محکمہ جنگلات ہر جگہ پہنچ کر آگ بجھانے میں مقامی لوگوں کی مدد اور خاطر خواہ راہنمائی کر سکے۔ محکمہ جنگلات کے حکام کے مطابق آتشزدگی کی صورت میں فارسٹ گارڈز ڈنڈوں یا پھر گھنی شاخوں کی مدد سے آگ بجھاتے ہیں جن سے چھوٹے موٹے واقعات پر تو قابو پالیا جاتا ہے لیکن اگر خدا ناخواستہ یہ آگ خطرناک شکل اختیار کرلے تو پھر ایسی آگ پرقابو پانا تقریباً ناممکن بن جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اب تک ہونے والے زیادہ تر واقعات میں آگ بجھانے کے لیے ریسکیو 1122 کا عملہ ہی تعاون فراہم کر رہا ہے جن کے مطابق جنگل میں آگ بجھانا ان کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہے لیکن وہ یہ کام اخلاقی فرض سمجھ کر سرانجام دے رہے ہیں۔ ریسکیو 1122 کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ہیلی کاپٹر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر جنگلات میں فائر فائٹرز کو پانچ گھنٹے تک پیدل جانا پڑتا ہے جبکہ پہاڑیوں پر جانے کے لیے ان کے پاس سیفٹی اور آگ بجھانے کی دیگر ضروری سہولتیں بھی موجود نہیں ہیں۔
یہاں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ آخر یہ آگ لگتی کیسے ہے جس کے جواب میں بعض محققین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیادہ تر جنگلات کو لوگ پیسے اور جانوروں کے چارے کے لیے استعمال کرتے ہیںاس لیے کچھ لوگ جنگلات کی خشک جھاڑیوں کو اس لیے جلا دیتے ہیں تاکہ بارش کے دنوں میں وہاں دوبارہ پودے اُگ آئیں اور اس کو جانوروں کے لیے بطور چارہ استعمال کیا جا سکے۔ اسی طرح بعض لوگوں کی لاپروائی اور غیرسنجیدگی بھی جنگلات میں آتشزدگی کی وجوہات میں شامل ہیں۔ اسی طرح جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات کی ایک بڑی وجہ سیاحوں کا جنگلات میںکھانا پکانے کے لیے آگ جلانے کو بھی قرار دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات وہ آگ پھیل کر پورے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس کا خمیازہ بعد ازاں سارے علاقے کو سنگین خطرات اور مالی وماحولیاتی نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔