علاقائی سیکورٹی ڈائیلاگ کا انعقاد

600

گزشتہ دنوں تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں افغانستان کی سیکورٹی اور مستقبل کے حوالے سے افغانستان کے آٹھ پڑوسی ممالک کا علاقائی سلامتی سے متعلق چوتھا ڈائیلاگ اس بات پر دال ہے کہ خطے کے ممالک نہ صرف افغانستان کی سلامتی اور اس کے مستقبل کے حوالے سے کتنے حساس اور بیدار ہیں بلکہ وہ اس صورتحال کے خطے پر ممکنہ اثرات اور مستقبل کے چیلنجز کے حوالے سے کافی سنجیدہ بھی ہیں۔ واضح رہے کہ افغانستان کی سلامتی سے متعلق منعقد ہونے والے اس دو روزہ اجلاس میں روس، بھارت، ایران، چین، قازقستان، ازبکستان، کرغزستان اور تاجکستان سمیت آٹھ علاقائی ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں یا سیکرٹریز نے شرکت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں افغانستان کی سلامتی، انسداد دہشت گردی، افغانستان کے مہاجرین اور خطے سے باہر کے ممالک کی افغانستان میں مداخلت سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کے علاوہ معاشرے کے تمام طبقات کی نمائندگی پر مشتمل ایک جامع حکومت کی تشکیل پربھی سیر حاصل گفتگو کی گئی۔
اس اجلاس میں افغانستان کی سلامتی، اقتصادیات اور سیاسی امور کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور اسمگلنگ کے معاملات بھی بحث کے اہم نکات تھے۔ دوسری جانب اس ساری صورتحال اور خطے کے حالات پر نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تاجکستان میں منعقد اجلاس افغانستان اور اس کے عوام کو فائدہ پہنچانے کے بجائے زیادہ تر شریک ممالک کے لیے سیاسی فائدے میں اضافہ کرے گا اور شاید اس ڈائیلاگ کے انعقاد کا مقصد بھی افغانستان کو کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے افغانستان کے حالات کے تناظر میں اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ ایسا کرنا اور اس نہج پر سوچنا بظاہر تو ہر اس ملک کاحق ہے جو خود کو افغانستان کے حالات سے لاتعلق نہیں سمجھتا اور خاص کر وہ ممالک جو افغانستان کے پڑوسی ہونے کے ناتے افغانستان کی بدامنی اور وہاں کے مخدوش سیاسی اور معاشی حالات سے خود کو الگ نہیں کرسکتے لہٰذا ان کا ایسی کسی بھی سرگرمی میں شریک ہونا تو قابل فہم ہے لیکن یہاں تین امور یقینا توجہ کے لائق ہیں جن میں اولاً اس ڈائیلاگ میں بھارت کا افغانستان کا پڑوسی نہ ہونے کے باوجود شرکت، ثانیاً اس کانفرنس سے پاکستان جو افغانستان کا نہ صرف سب سے قریبی پڑوسی ہے بلکہ جو افغانستان کے حالات سے پچھلی چار دہائیوں کے دوران متاثر ہونے والا سب سے بدقسمت ملک بھی ہے کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہ دینا ہے۔ ان دوباتوں سے بھی سب سے بڑی اور ناقابل فہم بلکہ ناقابل ہضم بات اس ڈائیلاگ میں افغان حکومت یعنی طالبان کو نظر انداز کیا جانا ہے۔
طالبان کو زیر بحث ڈائیلاگ میں شرکت کی دعوت نہ دینے کے حوالے سے ان کے مخالفین کی اس بات میں یقینا کافی وزن ہے کہ گزشتہ نو مہینوں کے دوران امارت اسلامیہ نے ایک جامع حکومت کی تشکیل اور لڑکیوں کے لیے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے سمیت دنیا کے کسی بھی مطالبے کا مثبت جواب نہیں دیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ طالبان حکومت کو افغانستان کے آٹھ پڑوسی ممالک سمیت کسی بھی حکومت نے تادم تحریر تسلیم نہیں کیا ہے جس سے طالبان کی مشکلات اور مسائل میں یقینا مزید تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ طالبان جو افغانستان پر قبضے کے بعد اب ایک ناقابل تردید حقیقت ہیں کو انگیج کرنا اور انہیں عالمی سطح پر تسلیم کروانے سے پہلے علاقائی ممالک کے لیے قابل قبول بنانا اگر ایک طرف طالبان کی ضرورت ہے تو دوسری جانب یہ خطے کے ان تمام ممالک بالخصوص افغانستان کے پڑوسی ممالک بشمول روس کی مشترکہ ذمے داری ہے کہ وہ طالبان کو بین الاقوامی دائرے میں لانے کے لیے نہ صرف انہیں تسلیم کرے بلکہ ان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے افغانستان کی تعمیر وترقی اور خاص کر وہاں کے مفلوک الحال عوام کی دادرسی کے لیے عملی قدم بھی بڑھائے۔ یاد رہے کہ زیربحث اجلاس افغانستان پر 2021 میں ہندوستان میں منعقد ہونے والے تیسرے علاقائی سیکورٹی ڈائیلاگ کا فالو اپ تھا جب کہ ان سے قبل 2018 اور 2019 میں بالترتیب منعقد ہونے والے پہلے اور دوسرے اجلاس کی میزبانی ایران نے کی تھی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ طالبان دوحا میں امریکا کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے میں عالمی برادری کو یقین دلاچکے ہیںکہ افغان سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی لیکن اس واضح یقین دہانی کے باوجود خطے کے ممالک بھارت کے اکسانے پر طالبان کی اس یقین دہانی پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کا بین ثبوت دوشنبے میں ہونے والے حالیہ آٹھ ملکی اجلاس میں افغانستان کے پرامن حالات پر تشویش کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس اجلاس میں طالبان اور افغانستان کے ساتھ ڈھائی ہزار کلومیٹر مشترکہ سرحد کے حامل پاکستان کوشرکت کی دعوت نہ دینا ہے۔
افغان وزارت ثقافتی کمیشن کے ایک رکن روح اللہ عمری نے دوشنبے میں ہونے والے اس اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاجکستان ہمارا ایک اچھا پڑوسی ملک ہے البتہ کابل کسی بھی ملک کو افغان سرزمین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے گا۔ اطلاعات کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان زمینی سفر اب ممکن نہیں ہے۔ افغان تاجک سرحد پر پھنسے ہوئے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کئی دنوں سے سرحد پار کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اب تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ دراصل طالبان کے ظہور میں آنے کے بعد افغانستان اور تاجکستان کے درمیان جو کشیدگی پائی جاتی ہے وہ دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے اس کشیدگی کا حل باہمی طور پر تسلیم شدہ پالیسی اور ہمسائیگی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے ہی سے ممکن ہے۔