لوڈ شیڈنگ کا عذاب

510

مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں دعویٰ کیا ہے کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں اور اگلے چند روز میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہو کر محض ساڑھے تین گھنٹے جبکہ 30 جون سے لوڈ شیڈنگ دو سے ڈیڑھ گھنٹے کے قریب رہ جائے گا۔ سابق وزیر اعظم کی جانب سے یہ دعویٰ ان حالات میں سامنے آیا ہے جب پچھلے کچھ دنوں جب سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اس دوران ملک کے بعض علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بارہ سے بڑھ کر سولہ گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ واضح رہے کہ پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ بجلی کا شارٹ فال 7 ہزار 793 میگا واٹ تک پہنچ گیا ہے جب کہ بجلی کی مجموعی پیداوار 19 ہزار 207 میگاواٹ اور طلب 27 ہزار میگاواٹ ہے۔
پاکستان میں جاری بجلی کے بدترین بحران کی کوئی اور وجہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے نااہل حکمرانوں کی کوتاہیوں، کرپشن اور نالائقی کی داستان ہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو ناقابل برداشت لوڈ شیڈنگ کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے ہاں تربیلا، منگلا اور ورسک کے تین بڑے پاور پلانٹ جو سستی بجلی بناتے ہیں اور جن کی توسیع وترقی پر کئی سال سے کام جاری ہے تاحال مکمل نہیں ہوسکے اس پر مستزاد یہ کہ گزشتہ کئی سال کے دوران وطن عزیز میں بجلی کا کوئی نیا پلانٹ نہیں لگا۔ بھاشا اور مہمند ڈیم جن کا پوری قوم کو شدت سے انتظار ہے ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ ان کا اسٹیٹس کیا ہے۔ کالاباغ ڈیم کو سیاسی مفادات اور صوبائی عصبیت کی بھینٹ چڑھا کر اس قابل عمل اور ضروری منصوبے کو پچھلی کئی دہائیوں سے محض مفروضوں کی بنیاد پر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسے ملک کے ساتھ سراسر ظلم اور وطن دشمنی کا ثبوت ہے کہ جہاں پانی سے سستی ترین بجلی بنانے کے وسیع مواقع دستیاب ہیں اور جہاں کے دریائوں کا پانی ایک بڑی مقدار میں سمندر برد ہوکر ضائع ہوجاتا ہے وہاں کے بائیس کروڑ عوام بجلی نہ ہونے کے باعث اس شدید ترین گرمی کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ ماضی میں تھرمل بجلی کے کرپشن کے الزمات کے تحت بنائے گئے مہنگے ترین منصوبوں کا راز شاہد خاقان عباسی نے عین چوراہے میں یہ کہہ کر پھوڑا ہے کہ حکومت بازار سے مہنگی ایل این جی اور فرنس آئل خرید کر بجلی بنار ہی ہے، ایل این جی کے وہ جہاز جو 30 ملین ڈالر میں آتے تھے وہ آج 120 ملین ڈالر کے خریدے جارہے ہیں جس کا بوجھ لازماً عوام پر بجلی کی ناروا لوڈ شیڈنگ اور اس کی قیمتوں میں ہونے والے بے تحاشا اضافے کی صورت میں سامنے آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔
موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر گزشتہ دنوں بجلی کی قیمتوں میں 8 روپے فی یونٹ تک کے اضافے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے بجلی کا موجودہ نرخ فی یونٹ 25 روپے تک بڑھ جائے گا جبکہ دیگر اخراجات شامل کرنے سے یہ ریٹ فی یونٹ 60 روپے تک بڑھنے کا خدشہ ہے جس سے عام لوگوں کی زندگی مزید اجیرن بن جائے گی۔ واضح رہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کے تحت موجودہ وقت میں تقریباً پچاس یا اس سے زائد یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کا بل 4 سو روپے، ایک سو یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کا ماہانہ بل تقریباً 8 سو روپے، ماہانہ150 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کا بل 12 سو روپے اور 2سو یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کا بجلی خرچ ماہانہ بنیادوں پر 16سو روپے تک بڑھ جائے گا۔ پیسکو ذرائع کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا اطلاق جولائی کے مہینے کے بجلی بلوں پر کیا جائے گا۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور باربار کی ٹرپنگ کا اثر ویسے تو گھریلو صارفین پر سب سے زیادہ پڑ رہا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو اس مصیبت نے معاشرے کے تمام طبقات کو یکساں طور پر ذہنی مریض بنا رکھا ہے۔ جاری لوڈ شیڈنگ سے اسپتالوں میں داخل مریض سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں جس کے باعث مریضوں کے لیے اسپتالوں میں ایک گھنٹے کا قیام بھی مشکل ہوگیا ہے۔ لوڈشیڈنگ سے اسپتالوں کے ائر کنڈیشن پلانٹس نے کام بند کردیا ہے جبکہ پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہونے کی وجہ سے یہاں جنریٹرز کا چلایا جانا بھی تقریباً ناممکن ہوتا جارہا ہے۔
دوسری جانب بجلی اور گیس کی بے تحاشا لوڈشیڈنگ کے باعث عام شہری توانائی کے متبادل ذرائع ڈھونڈنے اور استعمال کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ویسے تو پاکستان میں پچھلے کئی سال سے بجلی کی مسلسل لوڈ شیڈنگ اور کم وولٹیج کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے لوگ جنریٹرز، سولر پینل، بیٹریوں اور یو پی ایس کے متبادل ذرائع سے اپنی مالی استطاعت کے مطابق رجوع کرنے پر مجبور ہورہے تھے لیکن موجودہ بحران کے باعث توانائی کے روایتی ذریعے سے متبادل ذرائع پر منتقلی کا یہ عمل بہ امر مجبوری اب مزید تیز ہوگیا ہے جس کا ثبوت مارکیٹ میں بڑی تعداد میں شمسی توانائی سے چلنے والے ائر کولرز اور لائیٹنگ کے سازو سامان کا بکثرت نظر آنا ہے جس کی دھڑ ا دھڑ خریدو فروخت جاری ہے البتہ گزشتہ برس کے مقابلے میں مذکورہ پنکھوں، کولرز اور بیٹریوں وغیرہ کی قیمتوں میں بھی چونکہ کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے متبادل توانائی پرمشتمل یہ اشیاء بھی غریب شہریوں کی قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں جس پر نہ صرف حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں چھوٹ کی ضرورت ہے بلکہ بازاروں میں مذکورہ سامان کے نرخوں کوکنٹرول میں رکھنے کے لیے ان پر چیک کا بھی کوئی موثر نظام بروئے کار لایا جانا ضروری ہے۔