اب تو سوچا ہے کہ پتھر کے صنم پوجیں گے

661

پاکستان کس جانب جا رہا ہے یا لے جایا جا رہا ہے، یہ بات شاید صرف اللہ ہی کو معلوم ہے۔ پاکستان میں جو بھی اقتدار میں آتا رہا ہے وہ آگے کی جانب کم اور پیچھے والوں کی جانب زیادہ دیکھتا رہا ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل وہ حکومت کے جن جن اقدامات کو ہدفِ تنقید بنا کر اپنی سیاسی دکان چمکاتا رہا ہے، اقتدار ملنے پر وہی ’’برے‘‘ کام اس سے سو گنا برے انداز میں کرتے چلے جانے کے باوجود اپنے ہر برے قدم کو پچھلوں کی برائی کا شاخسانہ قرار دینے کے علاوہ کبھی کچھ اور کرتا ہوا نظر نہیں آیا۔ موجودہ حکومت سے ٹھیک پہلے جو حکومت تھی وہ اپنے 3 سال 7 ماہ مسلسل اسی بات کی شکایت کرتی رہی کہ ہم ان ہی سارے برے اقدامات کو دہرانے پر اس لیے مجبور تھے کہ ہم سے پہلے والے ملک کو اس حالت میں چھوڑ گئے تھے کہ آنے والے سخت سے سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوں۔ موجودہ حکومت جس کے دعوں کی مطابق ان سے پہلی حکومت نے ملک کو معاشی اعتبار سے تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا تھا، ان کے خیال میں وہ اسے اپنے قدموں میں کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن لگ رہا ہے کہ اگر معاشی تباہ حالی پہلے چل چل کر آ رہی تھی تو اب نہایت برق رفتاری کے ساتھ دوڑتی بھاگتی چلی آ رہی ہے اور شاید ہی اس کی تیز رفتاری پر کوئی بند باندھا جا سکے۔ پچھلوں کی طرح یہ بھی ہر ہتھوڑا مارنے کے بعد یہی کہتی سنائی دیتی ہے کہ ایسا سب کچھ پچھلی حکومت کے اقدامات کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ ہمیشہ ہی پچھلی حکومتوں کے اقدامات ہی کی وجہ سے ہوتا چلا آیا ہے تو پھر جو بھی آتے ہیں ان کے آنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔
وقت اس بات کو ثابت کرتا جا رہا ہے کہ جب تک پاکستان میں حکومت کرنے والی اصل شکل و صورت کو سامنے لاکر اسے عوامی عدالت میں کھڑا نہیں کیا جائے گا اس وقت تک پاکستان اپنی درست منزل کی جانب نہیں بڑھ سکے گا۔ یہاں ہر سیاستدان، مذہبی رہنما، اینکر، صحافی اور دانشور چند باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کو محض باتیں خیال کرنا اور ان کو غیر سنجیدگی سے لینا ایک بہت بڑے ریاستی جرم سے کم نہیں۔ یہ باتیں جب تک اپنے انجام تک نہیں پہنچیں گی اس وقت تک تباہی و بر بادی سے پاکستان کو نہیں بچایا جا سکتا۔ ان چند باتوں میں ’’ایک پیج‘‘ کی بات بھی ہے۔ اکثر یہ بات سننے میں آتی ہے کہ حکومت اور عسکری طاقت ایک پیج پر ہے یا ایک پیج پر نہیں ہے۔ یہ دونوں الگ الگ پیج آخر کیوں ہیں۔ عسکری طاقت کتابِ ریاست کا ایسے کردار والا پیج کیوں بن جاتی ہے جو پلے انگ کارڈز کے رمی گیم میں جوکروں کا ہوتا ہے۔ دنیا میں ایسا بھی کوئی ترقی یافتہ ملک ہے جہاں ان کی ریاست مختلف صفحات پر بکھری ہوئی ہو۔ ایک بات ’’مقتدر‘‘ قوت کی اکثر متذکرہ حلقوں کے زیر لب رہتی ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کسی بھی ملک میں حکومت کے علاوہ کوئی ’’مقتدر‘‘ قوت ہوتی ہے۔ ہر ریاست میں صرف ایک ہی ’’مقتدرہ‘‘ ہوتی ہے اور وہ صرف اور صرف حکومت ہوتی ہے اور جن جن ممالک میں حکومت کے علاوہ کچھ اور ’’مقتدرائیں‘‘ موجود ہیں ان کا حشر پوری دنیا کے سامنے ہے۔
پاکستان میں ایک بات نہایت شد و مد کے ساتھ کی جاتی ہے کہ اگر ’’ہمیں‘‘ کچھ کہا گیا تو اس سے پاکستان کمزور ہو جائے گا۔ یہ بات ایک بار نہیں بار بار بلکہ لگاتار عسکری حلقوں کی جانب سے دہرائی جاتی ہے۔ اسی پاکستان میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہاں ہر حکومت کو جس انداز میں ہر ادارے، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ذلیل کیا جاتا ہے وہ شاید ہی کسی مہذب ملک میں دیکھنے میں آتا ہو۔ سیاست کے ایک طالب ِ علم کی حیثیت سے میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ریاست کے وجود میں آنے کے بعد ریاست کا سب سے پہلا اور اہم ترین ستون ’’حکومت‘‘ ہی ہوتی ہے۔ باقی جتنے بھی استوان ہیں ان کا درجہ حکومت کے بعد آتا ہے جس میں عدلیہ اور مقننہ شامل ہیں۔ عسکری قوت بے شک ایک قوت ضرور ہے لیکن یہ ’’استوان‘‘ میں شامل نہیں۔ لہٰذا کسی ماتحت ادارے کا یہ کہنا کہ اس پر تنقید ریاست کو کمزور کرنا ہے، درست نہیں بلکہ حکومت کو مسلسل ہدفِ تنقید بنانا، اس کو کام نہ کرنے دینا، ہر وقت سیاسی پارٹیوں کے سائز کو چھوٹا بڑا کرنے کے تجربات کرتے رہنا، کس کو لانا ہے اور کسے نہیں آنے دینا اور ’’طاقت‘‘ کو غلط استعمال کرتے رہنا ہی اصل خرابی کی جڑ ہے جس نے پاکستان کو اس حالت میں پہنچا دیا ہے۔ کوئی امید اس بات کی دکھائی ہی نہیں دے رہی کہ یہ ایک ’’پیج‘‘ کب کتابِ ریاست میں ضم ہوگا، کب مقتدرہ کی کہانی ختم ہوگی۔ کب ’’ہمیں‘‘ کچھ کہا تو والی بات حکومت کو کچھ کہا تو میں تبدیل ہوگی۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تو کچھ بھی کر لیا جائے کچھ بھی ہوکر نہیں دے گا۔ موجودہ صورتِ حال اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ جو کچھ ہوتا رہا ہے، جو کچھ ہو چکا ہے اور جو کچھ بھی ہونے جا رہا ہے اس میں ساری کہانی ’’ہمیں کچھ کہا‘‘، ’’مقتدر قوتیں‘‘ اور ’’ایک پیج‘‘ والے کردار صاف متحرک دکھائی دے رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ سوچنا کہ کوئی بھی آنے والا اس ملک کو استحکام کی جانب لے جائے گا، دیوانے کے خواب کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ان سارے حالات کو سامنے رکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
اب تو سوچا ہے کہ پتھر کے صنم پوجیں گے
تاکہ گھبرائیں تو ٹکرا بھی سکیں مر بھی سکیں